“سیاسی تنظیم مشترکہ قومی سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے تشکیل دی جاتی ہے” اور ہم خیال کارکن رضا کارانہ طور پہ شامل ہو کر اپنی قومی اور سماجی معملات کو حل کرنے کے لیے جہد کا حصہ بنتے ہیں ۔”کارکن اور سیاسی رہنماوں پر مشترکہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ” کہ قومی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے سوچ ،سمجھ کر سیاسی عمل کو آگے لے جانا ہے۔
” عمل کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے کچھ اصول بنانی پڑتی ہیں” تاکہ مثبت اور منفی پہلووں پر نظر ہو اس کے لیے سیاسی طریقہ کار کے مطابق بحث کی جاتی ہے۔اور غور و فکر کر کے لاءعمل ترتیب دے کر عمل کی جاتی ہے لیڈر شپ اور سیاسی کارکنوں کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ سوچ و فکر کر کے عمل کے مثبت پہلووں میں اضافہ کر کے مقاصد حاصل ہوں۔”کمزوری اور کمی بھی عمل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن مستعد تنظیم اور کارکن انکا فوراّ ادراک کرتے ہیں” کچھ کی نشاندی فوری ممکن ہوتی ہے اور کچھ تجربہ کی بنیاد کے طور پر اگلے عمل کو مزید مضبوط اور مثبت کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
“کوئی عمل چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ہر عمل کے اثرات ہوتیں ہیں جو کھبی جلدی کبھی دیر سے نمودار ہوتیں ہیں”۔ اس لیے “تنظیم اور کارکن ہمیشہ متحرک رہ کر اپنے عمل کو انقلابی بنا سکتے ہیں” ۔”روایتی اور انقلابی تنظیم میں فرق عمل کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے” ۔ عمل کے دنیا بھر میں پہلے سے موجود طریقہ کار اختیار کی جاسکتی ہیں اور انقلابی اقدام کرنے کے لیے ” تنظیم کارکنوں کی تربیت اور مثبت سوچ کی حوصلہ افزائی کر کے کارکنوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے” تاکہ تنظیم انقلابی طریقہ کار اختیار کر سکے۔
مثبت اثرات , انقلابی طریقہ کار تحریک کے لیے دوررس ہوتی ہیں اس سے عوامی حماحت حاصل ہوتی ہے کیوں کے عمل کے اثرات آنے کو عوام محسوس کرنے لگتی ہے اور” اداروں پر اعتماد میں اضافہ کا مطلب تحریک کے مضبوط ہونےسے جڑی ہوتی ہیں” ۔ ہم خیال پارٹی اور جہد کار بھی تنظیم کی عملی اقدامات کو قومی تحریک اور اجتماعی مقاصد کے حوالے سے مثبت کارکردگی کو خوش آئند تصور کریں گے جس سے قومی یکجہتی کو فروغ حاصل ہوتی ہے۔اور اشترک عمل کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اس سے عوام اور کارکنوں میں جوش اور ولولہ پیدا ہوتی ہے اور مزید عمل کے مواقع ملنا شروع ہو جاتی ہے۔کارکنوں کو عمل کے ابتدای مرحلے سے لیکر اخر تک ساتھ رکھنے سے تنظیم کو آنے والے وقت کے لیے نظریاتی قیادت ملتی ہے جس سے تنظیم ہمیشہ موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت حاصل کرتی ہے۔”سیاسی قیادت کی پختگی سے لوگ تنظیم کو اپنی اجتماعی ذمہ داریاں سونپ دیتی ہیں” جس سے قیادت مضبوط سیاسی و سماجی اقدامات اٹھاتی ہے۔
“سیاسی عمل کے دوران کمزوری اور کوتاہی کی وجہ سے عوام ،سیاسی کارکن، دانشور اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنظیم اور کارکنوں کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ” اس سے فاہدہ اٹھا کر “تنقید کو عمل کے جانچھ کے لیے ایک آہینہ کے طور پر استمعال میں لایا جاے” اور آنے والے عمل میں ان پر غور و فکر کر کے کمزوری اور کوتاہیوں کو دور کی جاے تو اس سے انقلابی تبدیلی رونماء ہو گی۔تنقید سے گھبرانے کی بجاے اس سے الجھے بغیر ” عمل کے ذریعہ خود کو ثابت کرنا ہی انقلابی تنظیم اور کارکن کا شیوہ ہے”۔تنظیم اور سیاسی کارکنوں کو چاہیے کہ عمل میں شامل ہونےکا موقع دیکر ” دانشوروں سیاسی کارکنوں کو تنقیدی اور مثبت پہلووں پر بحث و مباحثے کی دعوت دیں” ساتھ ساتھ دانشور سیاسی کارکنان کی بھی ذمہ داری بنتی ہہ کہ وہ عمل اور تنظیمی کردار کو پرکھیں اور مثبت اقدامات پر تنظیم اور کارکنوں کی حوصلہ آفزائی کریں تاکہ خود اعتمادی پیدا کر کے تنظیم کو اجتماعی کردار اور انقلابی طرز عمل اختیار ادا کرنے کا موقع مل سکے۔
ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن اپنے قیام میں آنے کے بعد سے ہی عملی طور پر متحرک کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں مثبت اور موثر انداز میں نبھا کر قومی تحریک کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکے۔تنظیم کی جانب سے دوروخی منصوبہ بندی انتہائی اہم قدم ہے جس میں تنظیم اور کارکنوں کو نظریاتی حوالے سے تیار کر کے بلوچ قومی تحریک میں کردار ادا کرنے کے لیے مثبت تربیتی عمل کو شروع کیا گیا ہے اس سے یقینن بہترین نتاہج سامنے آنے اور ایک سیاسی طور پر مضبوط نظریاتی کیڈر کی تشکیل ممکن ہو پاے گی۔”کارکنوں کو اہم فیصلہ سازی میں مواقع فرہم کرنا تنظیم کو مضبوطی کی طرف گامزن کرنے کا سبب بنے گی” تنظیم میں شمولیت اور قومی تحریک میں کردار ادا کرنے کےلیے جہد کاروں کی حوصلہ آفزائی ہوگی۔ دوسری جانب بلوچستان اور بین الاقوامی سطح پر تنظیم کو منظم کرنے کے لیے اقدامات اور انقلابی طریقہ کار اختیار کر کے جہد اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے سسلسلے میں لندن میں اشتہاری مہم کی کامیابی کے بعد امریکہ کے شہر نیویارک میں آذاد بلوچستان مہم انتہائی قابل قدر مانے جارہے ہیں ۔ مختلف کانفرنس کے انعقاد کر کے سفارت کاری کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ جسکی وجہ سے دن بہ دن تحریک کے حوالے سے راے عامہ ہموار ہو رہی ہے اور بلوچستان اور اسکی مقبوضہ حیثیت کے بارے میں آگاہی میں اضافہ ہواء ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن اسکی قیادت اور کارکن جہد کے نہے ذراہع تلاش کر کے قومی تحریک میں اپنا مثبت کردار اور اشتراکء عمل کے ذریعہ قومی امنگوں کو پورا کریں گے۔