ہفتہ وار کالم ’’ نوشتہ دیوار‘‘ برزکوہی بلوچ کے قلم سے
سردار اختر مینگل اور آنے والے انتخابات
ویسے سردار اختر مینگل ہمیشہ درمیانہ طرز سیاست پہ چلتے آرہے ہیں ، پاکستان کو بھی ناراض نہیں کرتا اوربلوچ کو بھی،
’’یعنی نا سیخ جلے نا کباب‘‘
لیکن آنے والے پاکستانی عام انتخابات اور سردار صاحب کابھرپور طریقے سے انتخابات کی تیاری اور بلوچستان میں بڑے بڑے پارلیمانی مگرمچھوں کی بی این پی میں شمولیت کہیں تو ایسا نہیں کہ بی این پی کے لئے پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے راہ ہموار ہونے کا گرین کارڈجاری کردیا ہے ؟
اگر راہ ہموار ہوچکا ہے تو کیا سردار صاحب، لشکری رئیسانی ،ثناء بلوچ وغیرہ کل کوبرائے راست ڈاکٹر مالک، نیشنل پارٹی،
ثناء زہری اور سرفرازبگٹی کی طرح پاکستانی فوج کا وفادار بن کر اپنے ہاتھوں کو بلوچوں کی خون سے رنگین کریں گے،یا گمشدہ بلوچ نوجوان کی زخموں پہ نمک پاشی کریں گے،مزید بلوچوں کے گھرو گدانوں پہ بمباری اور آگ لگا کر لوٹ مار جاری رکھیں گے؟
اگر جواب نہیں میں ہے؟تو پھر سردارصاحب کیا کرینگے؟
کیا آئی ایس آئی ،ایم آئی اور فوج کی رضامندی کے بغیر کوئی الیکشن جیت سکتا ہے اقتدار میں آسکتا ہے؟اگر ان کی رضامندی شامل ہو پھر ان کے عزائم کیا ہونگے، وہ انتہائی سیدھا سادہ ہے، بلوچ نسل کشی کو بلوچوں سے کروانا،اور قومی آزادی کی تحریک کو دبانا، اور عزائم اور حکمت عملی سے پاکستان کیلئے ایک نہیں بلکہ کئی فائدے ہیں ۔
سب سے بڑا فاہدہ پوری دنیا کو ایک واضح تاثر دینا کہ بلوچ قوم پرست میرے ساتھ ہیں اور جن کے خلاف آپریشن ہورہا ہے وہ بیرونی ایجنٹ ہیں اور ان کے خلاف ان کے خود اپنے بلوچوں کی رضا مندی و کمک و مدد سے ہم آپریشن کررہے ہیں ،فوج کے ساتھ ملکربلوچ قوم کو آپس میں دست گربیان کرنا اور نفرت پھیلانا کیونکہ اس حقیقت میں کوئی دورائے نہیں ،کوئی بھی جب پاکستانی مقتدرہ کا حصہ ہوگا، وہ ضرور عملََا بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کے مخالف سمت محو سفر ہوکر تحریک کے خلاف سرگرم عمل ہوگا تو پھر تحریک آزادی وابستہ تمام تنظیموں کا موقف واضح ہے جو بھی تحریک کے خلاف کام کریگا اسے ہرگز معاف نہیں کیا جاہیگا اسی مقام سے آپسی نفرت اور دست و گریبان ہونے کی شروعات ہوگا۔
سیدھی سے بات ہے آزادی کی جنگوں کو ایسی صورتحال سے ضرور گزرنا پڑے گا، تو بلوچ آزادی کی جنگ، پہلے ہی اس حالت سے گزر رہا ہے اور مزید گزرے گا ضرور، مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کس حد تک کہاں تک اور کیسے اپنی لوگوں میں مزید شعور اور آگاہی بیدار کرکے کم از کم عوام اپنی شعور اور اپروچ سے پاکستان کی انتخابات کو یکسر مسترد کرکے دنیا کو یہ پیغام دے کہ جو بھی پاکستانی انتخابات کا حصہ ہوگا وہ بلوچ قوم کا نمائندہ نہیں ہے بلکہ وہ پاکستان کے شراکت دار ہیں۔
بہرحال آنے والے 2018کے عام انتخابات سردار اخترمینگل اور بی این پی کیلئے ایک بڑی آزمائش اور چیلنج سے کم نہیں کہ وہ کس طرح اپنے متوازن سیاست کو مزید متوازن رکھ سکیں گے۔
فی الحال مشکل نہیں ناممکن لگے گا، اسے ایک طرف ضرور فیصلہ کرنا پڑیگا، بلوچ قوم کی وفادار یا غیرفطری ریاست پاکستان کی وفاداری ،تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دینا ،بلوچوں کے خلاف فوجی آپریشن اور بلوچوں کی نسل کشی کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن قراردینا، بلوچ شہیدوں کو دہشت گرد کہنا اور ہزاروں کی تعداد لاپتہ بلوچوں کو لاپتہ نہیں افغانستان یا پہاڑ پر روپوش کرنے والا کہنا،جو سردار صاحب کا ہمیشہ فوجی آپریشن اور لاپتہ نوجوانوں کی گمشدگی کے خلاف آواز اٹھانا موقف رہا ہے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد موقف کیا وہ ہوگا یہ سردار صاحب کا آنے والے وقت ہی بتائے گا۔