ہڑتال کو ناکام بنانے کیلئے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیاگیا مگر عوام نے اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہوئے اسے کامیاب بنایا ۔ بی این ایف
بلوچ نیشنل فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جاری پاکستانی ظلم و بربریت اور خواتین و بچوں کے اغوا کے خلاف دس اورگیارہ دسمبر کو بی این ایف کی ہڑتال کال پر بلوچستان کے اکثر علاقوں میں پہیہ جام رہاہے۔ریاستی دہشت گردی اوردرندگی کے باوجود بی این ایف کے کال پر مکمل عمل درآمد پاکستان کے وحشیانہ مظالم کے سامنے بلوچ قومی تحریک کے استحکام اور استقلال کی علامت ہے۔ مکمل پہیہ جام کے بعدکئی علاقوں میں ماضی کی طرح پاکستانی فورسز نے ٹرانسپورٹرز کودھمکیاں دیکر گاڑیاں سڑکوں پر نکالیں۔ یہ یقیناًقابض فورسز کی حواس باختگی اور بلوچ عوام کا مظالم کے سامنے کھڑا ہونے کی ثبوت ہے۔ دو دنوں میں بلوچستان کی اہم شاہراہ آر سی ڈی پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہڑتال کو ناکام بنانے کیلئے ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیاگیا مگر عوام نے اپنا قومی فریضہ نبھاتے ہوئے ہڑتال کو کامیاب بنایا۔
ترجمان نے کہا کہ کراچی سے اغوا کئے گئے کمسن بچوں ، طلباء اوربی ایس او کے رہنماؤں اور مشکے و راگئے سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغوا ہونے والی خواتین و بچوں کو بازیاب نہیں کیا گیاتو اس طرح کی ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ راگئے سے بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی دو بہنوں سمیت پچاس سے زائد خواتین مشکے اور ضلع واشک میں راگئے کی فوجی کیمپوں میں تشدد برداشت کر رہی ہیں۔ یہ درندگی کی انتہا ہے۔ اس پر خاموش رہنا انسانی اقدار اور بلوچ روایات کے برخلاف ہے۔
فوجی قوت کے بے دریغ استعمال کے باوجود پاکستان بلوچ قومی تحریک کی حدت میں کمی لانے میں ناکام ہوچکاہے۔ اس لئے جرائم پیشہ اور قومی غداروں کی پھرتی میں تیزی لائی جارہی ہے۔رسوائے زمانہ ڈاکٹر مالک اور سرفراز بگٹی کی جانب سے نسل کشی کے اعلان کے بعد آپریشن اور نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ کے نام پر قائم ڈیتھ اسکواڈز کو مزید سرگرم کیاجارہاہے۔ ان ڈیتھ اسکواڈز کے اہم سرغنہ علی حیدر محمد حسنی کا اچانک مشکے پہنچنااس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ قابض، فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں کئے گئے تجربات کو بلوچستان میں تیز کررہاہے۔ اس وقت بلوچستان میں نام نہاد قوم پرست نیشنل پارٹی سمیت کئی سردار’’الشمس ‘‘ اور’’البدر‘‘کا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ مذہبی شدت پسندوں کوپورے بلوچستا ن میں پھیلایاجاچکاہے ۔اس وقت بلوچستان کے کئی علاقوں میں عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے کیمپ باقاعدہ ریاستی سرپرستی میں کام کررہے ہیں۔ان کے ذریعے قابض، قومی تحریک کو ناکام بنانے اور بلوچ سماج میں مذہبی جنونیت کی بیج بورہاہے۔ سرکاری فورسز،سرکاری سردار،سرکاری ڈیتھ سکواڈز سمیت مذہبی جنونیوں کا بلوچ قوم کے خلاف میدان میں اتارنے سے یہ حقیقت عیاں ہورہاہے کہ پاکستا ن اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں اسے اپنے قبضہ گیریت کی موت سامنے نظرآرہاہے۔ ہر قبضہ گیر کی طرح پاکستان بھی تیزی کے ساتھ اپنی منطقی انجام کی طرح پہنچ رہاہے ۔
ترجمان نے کہا کہ پہلے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ کو بچی سمیت دوسرے خواتین کے ساتھ اغوا کرکے چار دن شدید ذہنی و جسمانی اذیت دیکر بلوچ قوم کی جانب سے شدید رد عمل کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ اگر پاکستان نے اپنی انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ برقرار رکھا تو بلوچ قومی ردعمل شدیدتر ہوتا جائے گا۔