روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پیر کے روز کہا ہے کہ اُنھوں نے اپنی فوج کی ’’خاصی تعداد‘‘ کو شام سے انخلا کا حکم دیا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات صوبہ ٴ لاذقیہ میں ’حميميم‘ کے روسی فضائی اڈے کے اچانک دورے کے دوران کہی، جہاں اُن کی ملاقات شام کے صدر بشار الاسد سے بھی ہوئی۔
روسی افواج 2015ء کے اواخر میں اسد کی فوج کی حمایت میں شامی تنازعے میں شامل ہوئیں۔
پوٹن نے پیر کے روز کہا کہ روسی اور شامی افواج نے ’’سخت جان بین الاقوامی دہشت گرد گروہ ‘‘ کو شکست دی ہے، جس سے بظاہر اُن کی مراد داعش کا شدت پسند گروپ ہے۔
شام کے سرکاری تحویل میں کام کرنے والے ذرائعِ ابلاغ نے شام میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں کردار ادا کرنے پر پوٹن کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ روسی فوج نے جو کچھ حاصل کیا ہے، اُسے شامی عوام کبھی نہیں بھولیں گے۔
روس حميميم کے روسی فضائی اڈے کے علاوہ، طرطوس کی بحری تنصیب اپنے پاس رکھنے کا خواہاں ہے۔
پوٹن کا یہ شام کا پہلا دورہ تھا، جو اُنھوں نے قاہرہ جاتے ہوئے کیا۔
شام میں روسی مداخلت نے باغیوں کو شکست دینے کی اسد کی کوششوں میں مدد دی، جو 2011ء سے اقتدار سے چمٹے رہنے کی لڑائی لڑ رہے تھے۔
یہ تنازع پُرامن احتجاج کے نتیجے میں شروع ہوا، جسے سختی سے کچلنے کی کوشش کی گئی، اور بالاخر اِس نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی، جس میں داعش کا شدت پسند گروپ مشرقی شام کے وسیع علاقے میں ملوث ہوا۔
گذشتہ ایک برس کے دوران، عراق اور شام دونوں میں داعش مخالف طاقتوں نے بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا ہے، جن میں عراق کے شہر موصل، اور شام کے شہر رقہ کے اہم گڑھ سے جنگجوؤں کو نکال باہر کیا۔
امریکہ نے اپنے اتحاد سے وابستہ فوجوں کو فضائی کارروائی سے مدد کی، جب کہ دونوں ملکوں میں سرزمین پر لڑاکوں کو مختلف طریقوں سے درکار حمایت فراہم کی۔