داعش والے امریکی اور سعودی اسلحہ استعمال کررہے ہیں : رپورٹ

353

ایک برطانوی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ امریکہ اورسعودی عرب کی جانب سے شام میں حکومت مخالف مسلح گروہوں کو فراہم کیا جانے والا اسلحہ عموماً شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے ہاتھوں میں گیا۔

اسحلے اور ہتھیاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والی تنظیم ’کنفلکٹ آرمامنٹ ریسرچ‘ (سی اے آر) کا دعویٰ ہے کہ دولت اسلامیہ کے پاس بیشتر اسلحہ شامی اور عراقی فوجیوں سے لوٹا ہوا ہے۔ لیکن کچھ اسلحہ خاص طور پر دیگر ممالک جیسے کہ امریکہ اور سعودی عرب نے شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف محاذ آرا حزب اختلاف کے گروہوں کو فراہم کیا تھا۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ 200 صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ انکشافات تنازعات میں مختلف غیرریاستی عناصر کے درمیان لڑائی اور ایک دوسرے پر قابو پانے کی جنگ میں اسلحے کی فراہمی کے تضادات ظاہر کرتے ہیں۔‘

سی اے آر نے کم از کم 12 ایسے معاملات کی نشاندہی کی ہے جس میں امریکہ سے خریدا گیا اسلحہ دولت اسلامیہ کے ہاتھوں میں پہنچ گیا تھا۔ یہ اسلحہ لڑائی کے دوران حاصل کیا گیا یا شامی حزب اختلاف میں اتحادوں کے تبدیل ہونے کی وجہ سے ہوا۔ تنظیم کے مطابق ایسا بیشتر اسلحہ بعد میں عراق پہنچا۔

ایک معاملے میں امریکہ کی جانب سے ایک یورپی ملک سے گائیڈڈ ٹینک میزائل خریدے گئے۔ یہ میزائل شامی حکومت مخالف گروپ کو فراہم کیے گئے لیکن محض دو ماہ میں یہ میزائل دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے پاس پہنچ گئے۔

تمام اسلحہ یورپی یونین ممالک میں تیار کردہ تھا اور بیشتر معاملات میں امریکہ نے شامی باغیوں کو یہ اسلحہ فراہم کر کے خریداری کے وقت کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی۔

سی اے آر کی جانب سے اکٹھے کیے گئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے یورپی یونین میں تیار کردہ اسلحہ اور ہتھیار تسلسل سے شامی حکومت مخالف قوتوں کو فراہم کیے۔

اس تھنک ٹینک کا دعویٰ ہے کہ دولت اسلامیہ نے تیزی سے ان پر واضح تعداد میں قابو پایا۔

سی اے آر کا کہنا ہے کہ اسی طرح دولت اسلامیہ کے زیراستعمال کئی ایسی اشیا کی نشاندہی ہوئی ہے جنھیں سعودی عرب نے کسی دوسرے ملک کو منتقلی نہ کرنے کی شرط پر حاصل کیے تھے۔

تھنک ٹینک کے مطابق شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے زیراستعمال 90 فیصد اسلحہ اور ہتھیار چین، روس اور مشرقی یورپی ممالک کے تیار کردہ تھے جبکہ ان میں سے 50 فیصد چین اور روسی ساختہ تھے۔

رپورٹ کے مطابق یہ انکشافات ان قیاس آرائیوں کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ فوجی ساز و سامان ابتدائی طور پر دولت اسلامیہ نے عراقی اور شامی افواج سے قبضے میں لیا تھا۔

سی اے آر کے مطابق ’شام میں دولت اسلامیہ کے زیراستعمال روسی ساختہ ہتھیاروں کی تعداد چینی ساختہ ہتھیاروں سے کہیں زیادہ تھی‘ جو بظاہر شامی حکومت کو روس کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی ظاہر کرتی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے عراقی وزيراعظم حيدرالعبادی نے اعلان کيا تھا کہ عراقی افواج نے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلاميہ تنظيم کے خلاف جنگ ميں مکمل فتح حاصل کرلی ہے۔

سنہ 2014 ميں اِس شدت پسند گروہ نے موصل، رقہ اور کئی دوسرے شہروں پر قابض ہونے کے بعد اپنی خلافت کا اعلان کرديا تھا۔ عراق اور شام ميں دولتِ اسلاميہ کے زيرقبضہ علاقوں ميں تقريباً ايک کروڑ لوگ آباد تھے۔