خضدار میں تحریک کی نئی ابھار – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

2285

خضدار رقبے کے لحاظ سے بلوچستان کا سب سے بڑا ضلع ہے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی حوالے سے بھی بہت اہم علاقہ ہے۔ خضدار بلوچ  سیاست میں بھی بہت اہمیئت کا حامل رہا ہے، یہ علاقہ سب سے زیادہ سرداروں کے اثر و رسوخ میں ہو نے کے باوجود حالیہ بلوچ آزادی کی تحریک میں فیصلہ کن اہمیت کا حامل رہا ہے اور خاص طور پر  گوریلہ جنگ کے حوالے سے خضدار انٹر نیشنل میڈیا کا توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرواتا رہا ہے، سنہ 2011 میں تو اسے بلوچستان کا سب سے خطرناک علاقہ قرار دیا گیا تھا۔

کچھ عرصہ قبل بلوچ رہنماء ڈاکٹر اللہ نظر نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کےایٹمی اثاثے بھی خضدار میں محفوظ ہیں، جس بات کی تصدیق حال ہی میں ایک  امریکی تھنک ٹینک The Institute for Science and International Securityنے کر دی۔

خضدار کا توجہ کا مرکز ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سرداروں کے کثیر تعداد ہونے، پاکستانی فوج کے دو بیرگیڈ ہونے کے باوجود، بلوچ تحریکِ آزادی نے انتہائی مضبوطی کے ساتھ جڑ پکڑلی اور یہ علاقہ سیاسی اور گوریلہ جنگی حوالے سے بہت زیادہ متحرک ہوگیا، جو بیک وقت نا صرف فوج اور پاکستانی سالمیت بلکہ سرداروں کیلئے بھی ایک بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آگیا۔ اسی وجہ سے یہاں فوج اور مقامی میرو سرداروں کے بیچ گٹھ جوڑ ڈیتھ اسکواڈوں کی صورت میں قائم ہوگیا۔ فوج اور ان ڈیتھ اسکواڈوں نے تحریک کے اس ابھار کو کچلنے کے لیئے جو انتہا درجے کے اقدامات اس علاقے میں اٹھائے  جیسے کہ سیںکڑوں لوگوں کا اغوا اور ماورائے عدالت قتل، سرے بازار لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ، 2009 میں بی ایس او کی پر امن ریلی پر فائرنگ، 2 مارچ 2010 کلچر ڈے پر خضدار انجنیئرنگ یونیورسٹی میں طلبا پر بم حملے جیسے واقعات ہوں یا پھرفوج کی پشت پناہی میں شفیق مینگل اور دیگر بد معاشوں و سزا یافتہ مجرموں پر مشتمل ڈیتھ سکواڈ کا قیام ہو یا توتک میں اجتماعی قبروں کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی کارکنان کے والدین و گھر والوں کا قتل عام ہو، گو ہر وہ ممکن قدم اٹھایا گیا جس کے ذریعے خضدار سے آزادی پسند سیاسی کارکنوں کا صفایا کیا جاسکے۔

اس دوران ان ڈیتھ اسکواڈوں کو کھلی چھوٹ دی گئی جس کی وجہ سے نا صرف سیاسی لوگ بلکہ سینکڑوں بے گناہ عام شہری بھی قتل ہوئے، مالی اخراجات پورے کرنے کیلئے ان ڈیتھ اسکوڈوں کو اپنے وسائل خود پورا کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی، جس کی وجہ سے اس علاقے میں ڈاکہ زنی ، اغواء برائے تاوان اور کنٹریکٹ کلنگ نے اس شہر کو تہہ بالا کردیا اور 2012 تک خضدار کی آدھی آبادی ہجرت کرکے شہر چھوڑ کر کراچی سمیت مختلف شہروں کی جانب ہجرت کرچکے تھے۔ ان سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ یہ علاقہ پاکستانی فوج کے لیئے بہت ہی اہم ہے اور فوج اپنی پوری طاقت لگا کر اس علاقے میں پچھلے چند سالوں سے جنگی و سیاسی کاروائیوں کو روکنے میں کافی حد تک کامیاب ہوگیا تھا اور خضدار کو مکمل ایک چھاؤنی بنا کر لوگوں کو خوف حراس میں مبتلا کر چکا ہے۔

خضدار شہر میں جاری اس طویل قتل و غارت اور ہجرت کے بعد فوج نے علاقے کا پورا کنٹرول حاصل کرنے اور شہر میں امن قائم کرنے کا دعویٰ کیا، سرکاری سطح پر یہ بھی دعویٰ ہوتا رہا کہ خضدار شہر سے تحریک آزادی کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا گیا ہے۔

لیکن پچھلے کچھہ مہینوں سے خضدار میں بلوچ تحریک کی ایک نئی ابھار دیکھنے کو ملی ہے۔ بلوچ مسلح تنظیموں کی کاروائیوں میں ایک بار پھر سے کافی شدت نظر آرہی ہے اور ان چند ماہ میں خضدار میں کئی مسلح کاروائیاں ہوچکی ہیں جن میں کچھ عرصے قبل سرنڈر کرنے والے دو افراد کا قتل، ایک سرکاری مخبر کا مارا جانا،  ایجنسیوں کے آلہ کاروں کی جانب سے  نکالی جانی والی ٹرمپ مخالف ریلی پر بم حملہ اور رواں ماہ 12 تاریخ کو کمانڈنٹ ایف سی پر ریموٹ کنٹرول بم حملے جیسے واقعات فوج اور خفیہ اداروں کو دوبارہ سے حرکت میں لا چکی ہے۔

یاد رہے کہ  اسی سال کچھ ماہ قبل آرمی، ایف سی، لیویز، پولیس و خفیہ اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنایا گیا تھا جس کا کام آزادی پسند سیاسی و مسلح کارکنوں کا پتا لگا کر انہیں اٹھانا اور شہر کے تمام لوگوں کی خفیہ جانکاری و مشکوک افراد کو اغوا کر کے پوچھ تاج کرنا وغیرہ ہے۔

خیال رہے کہ حالیہ حملوں کے بعد خضدار میں مسلسل فوجی آپریشن اور اغوا نما گرفتاریاں دوبارہ تیزی کے ساتھ جاری ہیں،  پاکستانی فورسز نے کمانڈنٹ پر حملے کے بعد ہارڈ بلوچستان کرکٹ کلب کی پوری ٹیم کو حراست میں لے کر تشدد اور تفتیش کرنے کے بعد باقیوں کو رہا کردیا لیکن تین کھلاڑی ابھی تک فورسز کی تحویل میں ہیں جن کی شناخت غازی جتک، ممتاز اور سجاد کے ناموں سے ہوئی ہے اور جمیل نامی  ایک شخص کو بھی فورسز نے لاپتہ کر دیا ہے جو ایک شاپنگ سینٹر چلاتا ہے۔

اس کے علاوہ خضدار کے علاقوں کوشک، اسد آباد، خلیج ہوٹل، خضدار یونیورسٹی، چاندنی چوک، کھنڈ، بولان کالونی، زیرینہ کھٹان اور بالینہ کھٹان میں فورسز کا سرچ آپریشن اور گرفتاریاں جاری ہیں، جبکہ بالینہ کھٹان سے گزشتہ روز دو افراد کو اٹھایا گیا تھا جن میں سے ایک کو رہا کر دیا گیا ہے اور دوسرے کا تا حال کچھ پتہ نہیں ہے۔ خضدار میں فورسز و خفیہ اداروں کے ہاتھوں آئے روز کوئی نہ کوئی جبری طور پر لاپتہ ہوتا رہتا ہے لیکن ان افراد کے نام اور تعداد معلوم نہیں ہو پاتے ہیں کیونکہ خوف کی وجہ سے کوئی بھی نہیں بتاتا کہ ان کے خاندان کا کوئی شخص لاپتہ ہے اور وہ بس اس امید  میں ہوتے ہیں کہ ان کو رہا کر دیا جائےگا اور خفیہ ادارے بھی لاپتہ افراد کے گھر والوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ اگر میڈیا کو بتایا یا احتجاج کیا تو ان کے پیاروں کو مار دیا جائے گا۔ دوسری طرف ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں متعدد صحافیوں کے شہادت کے بعد اب وہاں صحافی اپنی پیشہ ورانہ فرائض نبھانے سے کتراتے ہیں، جس کی وجہ سے خضدار معلومات کے حوالے سے ایک اندھیرے پن کا شکار ہے اور پہلے کے نسبت اب خضدار کے حقیقی حالات کے بابت لوگوں کو علم نہیں۔