ہفتہ وار کالم ’’ نوشتہ دیوار ‘‘ برزکوہی بلوچ کے قلم سے
بی ایس او کی پچاس سالہ تاریخ
مختلف نشیب و فراز، تقسیم و اتحاد، انضمام و ادغام ، خون و پسینے کی قربانیوں کی راہ پر گامزن ایک طویل تاریخ آج تک اپنی راہ و رابند ، اصولوں اور آزادی کے موقف پر قائم زندہ و روشن باب بی ایس او کا کارواں اپنی حقیقی راہ پر رواں دواں ہے، لاکھوں کارکنوں اور کیڈروں کو پیدا کرنے والا بی ایس او آج بھی قومی تحریک میں اپنا ایک منظم و متحرک کردار نبھا رہا ہے۔
اتنی طویل مسافت اور پاکستانی خفیہ اداروں کی پے درپے بی ایس او جیسے تنظیم پر مسلسل یرغمال بنانے، دباؤ ڈالنے اورسازش بی ایس او کی قیادت سے لیکر بے شمار کارکنوں کی گرفتاری ٹارچر اور شہادتیں اس کے باوجود بی ایس او کی اپنی وجود و تشخص کی برقرار رہنے کا بنیادی راز بی ایس او کا ادارہ جاتی و رسمی سسٹم ہے جہاں سے بھی لیا گیا ہے وہ اپنی جگہ الگ بحث ہے لیکن ایک مضبوط یا کمزور شکل میں ہمیشہ کسی بھی پارٹی اور تنظیم کو ہر مصیبت بحران اور یلغار سے بچاتی ہے جہاں بھی اداہ اور رسمی تنظیمی خدوخال موجود نہ ہو، وہاں کوئی بھی تنظیم یا پارٹی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا ہے گوکہ وہ بنیادی طور پر ضرور فکر و نظریہ اور قربانی کے جذبہ سے لیس ہو، مگر تنظیم کے بغیر زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رہ سکتا ہے۔
ایک ہی نظریہ ایک ہی فکر اور ایک مقصد کے علاوہ جب مختلف الخیال اور مختلف المزاج لوگ ہونگے تو ان تمام لوگوں کے مختلف خیال ہوتے ہوئے بھی ساتھ لیکر چلنا اور تنظیمی اصولوں کے سانچے میں ڈالنے اور آگے بڑھنا ہی دیرپاء اور موثر ہوگا، جب رسمی اور عملا تنظیم نہیں ہوگا تو پھر اصول بھی نہیں ہوگا۔
تنظیمی اصول ہمیشہ تنظیم کیلئے ہوتے ہیں بغیر تنظیم یعنی سر کے بغیر ٹوپی کاکوئی فاہدہ نہیں، اسی طرح تنظیم کے بغیر اصول بھی بے فائدہ اور ناکارہ ہوتے ہیں کیونکہ اصول ہمیشہ خود تنظیم بناتے ہیں وہ تنظم ہی کے کونسل دیوان مجلس اور سنٹرل کمیٹی وغیرہ ہوتا ہے جو ہمیشہ اصول بناتے ہیں ان میں تبدیلی و ترمیم سختی و نرمی سب کچھ ہوسکتا ہیں جو ہمیشہ بااختیار لوگوں کے صلاح و مشورے اور آراء سے ہوتے ہیں
جو کہ بلوچ قومی سیاست میں بی ایس او میں یہی سیاسی روایات کمزور شکل میں ہی سہی لیکن شروع سے موجود رہے ہیں۔
جب تنظیم نہیں ہوگا ،تنظیمی ڈھانچہ نہیں ہوگا، چھوٹے سے لیکر بڑے اور بڑے سے لیکر چھوٹے بحران مسائل اور معاملات کو دیکھنے پرکھنے اور ان پر سیر حاصل بحث و مباحثہ اور ان کا مستقل حل کہاں اور کیسے ہوگا؟جب نہیں ہوگا تو ایک ہی بحران و مسئلہ ہمیشہ درجن بھر بحرانوں اور مسائل کو جنم دیگا پھر انتشار و خلفشار یقینی ہوگا پھر اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا ہے اسی لیے تو بلوچ قومی سیاست میں ایسے بے شمار برائے نام یعنی فردی تنظیموں کا آج تک صرف نام ہی سننے کو ملتا ہے لیکن ان کا وجود کئی بھی نہیں ہے۔
انفرادی فیصلے ،قومی فیصلے نہیں ہوسکتے ہیں وہ صرف فردی فیصلے ہوسکتے ہیں، اگر ایک ہی فرد کے فیصلوں کو من وعن بغیر دلیل کے ساتھ ہزاروں بے اختیار ہاں میں ہاں ملانے والے درباری لوگ تائید و حمایت کر لیں، اورصرف رسم کو پورا کرنے کیلئے گوکہ صلاح و مشورہ بھی ہو انھیں کسی بھی صورت میں تنظیمی اور ادارتی فیصلے نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ ان کو نام نہاد تنظیمی شکل میں فردی فیصلہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ جب کوئی ایک ہی فرد اپنی ہی من پسند ہم خیال ہم مزاج درباری لوگوں کا ایک گروہ تشکیل دیکر اس کو جتنا ہی خوبصورت و تنظیمی نام دے، کونسل، کمیٹی ،سنٹرل کمان، کیبنٹ بیورو بولٹ سٹینڈنگ کمیٹی ہائی کمان وغیرہ وغیرہ لیکن اس وقت تک اس میں ایک ہی فرد کے ذاتی و انفرادی مزاج و خواہش کے فیصلے اور پالیسی ہونگے جب تک وہاں دیگر لوگوں کو مکمل اختیار نہ ہو، اختلاف رائے کا حق نہ ہو، تنقید کا رجحان نہ ہو، صرف سرہلانے ،ہاں میں ہاں ملانے کا رویہ ہو تو پھر صلاح و مشورہ کے لیبل پر دراصل فردی فیصلے ہی ہونگے ۔
دنیا کی تاریخ میں ایسے ریاستوں اور ایسے پارٹیوں کی زوال کے بے شمار داستان موجود ہیں، جو فردی خواہشات اور مزاج کی مطابق کچھ مدت کیلئے چلتے ہوئے اپنی وجود کھو بیٹھے ہیں، ضرور ان ریاستوں اور پارٹیوں کے سربراہاں کے نزدیک بھی ظاہری حدتک کثیر تعداد لوگ موجود ہوئے ہیں ،لیکن ان کا کام بس یہی ہوا ہے کہ ایک ہی فرد کی مزاج و طبیعت کے مطابق من وعن چلنا ،کبھی ضرورت پڑھنے پر یا فرد کی مزاج کے مطابق کبھی سیاہ کو سفید کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں پھر اس کے حق میں بہت سارے دلیل بھی دینا یہ ہرگز تنظیمی رویے نہیں ہوتے ہیں بلکہ درباری رویے ہوتے ہیں اگر ان کو سیاسی رویے کا نام دیا جائے وہ الگ بات ہیں لیکن سیاسی رویوں کا جو علمی تعریف ہے وہ کافی مختلف ہیں۔
بلوچ سیاست میں جب تک سیاسی رویوں سیاسی طریقہ کار اور سیاسی مزاجوں کی روایت اور رجحان نہیں ہوگا اس وقت تک بڑی سیاسی تبدیلی و ترقی کاکوئی امید نہیں ۔
سیاسی رویوں کا رجحان اور ماحول علم و تحقیق کے ذریعہ اپنے روایتی مزاج میں تبدیلی لانے میں پوشیدہ ہے، جب علم و تحقیق نہیں ہوگا تو لوگ سیاست کو بھی فرسودہ روایت سمجھ کر اسی طرز پر چلتے ہیں پھر سیاسی رجحان کم روایت پسندی زیادہ ملتا ہے۔