بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں مشکے و نصیرآباد میں فوجی آپریشن کی سخت الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکے میں یکم دسمبر سے جاری فوجی آپریشن میںہ مزید شدت لائی گئی ہے جس میں ریاستی فوج کی درندگی سے معصوم بچوں و خواتین سمیت 8 افراد شہید جبکہ ڈاکٹر الله نظر کی ہمشیرہ سمیت 60 خواتین اور بچوں کو لاپتہ کیا گیا ہے جو ریاست کی سفاکیت کو ظاہر کرتا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستی فورسز کس طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ نصیرآباد کے علاقوں چتھر ،ہوتی کہور اور تو پانی وڈ میں پاکستانی فورسز کی عام آبادیوں پر علی الصبح آپریشن کا آغاز کیا تھا اور دوران آپریشن فورسز نے عام لوگوں کے دو درجن کے قریب جھونپڑی نما گھروں کو نظر آتش کرتے ہوئے ان کے دو سو کے قریب مال ومویشیوں کو لوٹ کر لے گئے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں ریاست اپنی دہشتگردانہ کارروائیوں میں شدت لاتے ہوئے بلوچ آبادیوں کوزبردستی ان کے علاقوں سے بیدخل کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ نہتے لوگوں کے گھروں کو منہدم کرنا اور جلانا اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عالمی دلچسپی اور سرمایہ کار کمپنیوں کے لیے سازگار ماحول بنانے و چائنہ کی استحصالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ریاستی مشینری پوری طرح سے بلوچ قوم و بلوچ قومی تحریک کے خلاف متحرک ہے۔ جبکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے اور جنگی جرائم پر نظر رکھنے والی تنظیمیں بلوچ نسل کشی پرمکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے ریاستی اداروں کو بلوچ نسل کشی کا جواز اور مزید حوصلہ مل رہا ہے۔