خود ساختہ ہائی کمان اور اسکے جانب سے جاری کردہ اخباری بیان مسترد کرتےہیں – بی ایل اے

1342

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے تنظیم کے  سنئیر اور ریجنل کمانڈروں کی اکثریتی رائے سے جاری کئے جانے والے اپنے آج کے بیان میں  بی ایل اے ہائی کمان کے نام سے جاری ہونے والے پریس ریلیز کو مسترد کرتے ہوئے اس بیان کے ردعمل میں کہا ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی اس وقت تک کوئی باقاعدہ و متفقہ ہائی کمان نہیں رکھتا اور نا ہی تنظیم میں  متفقہ و تسلیم شدہ ایسی کوئی باڈی وجود رکھتی ہے، جسے ہائی کمان کے نام سے پہچانا یا پکارہ جاسکے، بی ایل اے میں ہائی کمان سے قریب ترین مشابہت رکھنے والا غیر رسمی ادارہ بی ایل اے کے تمام سینئر اور ریجنل کمانڈروں کی باڈی ہے۔ اس بیان کے اجراءکے بعد زیادہ تر سینئر اور ریجنل کمانڈران سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے اس بیان سے لاتعلقی و بے خبری ظاھر کی، لہٰذا یہ بے بنیاد اور خود ساختہ ہائی کمان اور اسکے جانب سے جاری کردہ اخباری بیان تنظیمی راز اور اصولوں کے خلاف غیر سنجیدگی کے زمرے میں آتا ہے، اسلیئے اسے مسترد کرتے ہوئے اس بیان کی بھرپور مذمت کی جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی جلدازجلد تنظیم کے سنئیر ترین کمانڈروں اور ریجنل کمانڈروں کی مشاورت سے ایک کور کمیٹی اور اسکے  معاونت کےلئے سنئیر گروپس کمانڈر کی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو تنظیمی امور اور مسائل پر تنظیمی سطح پر غور کرکے انکو حل کرنے کی کوشش کرینگے تاکہ تنظیم کے  اندر اختلافِ رائے ، ادارہ سازی ، تقسیمِ اختیارات جیسے جمہوری عوامل کی  راہیں مسدود نہ کی جاسکے اور آمریت کی حوصلہ افزائی اور اسکو پروان چڑھایا نہ جاسکے۔

   جیئند بلوچ نے مزید کہا ہے کہ ہم تنظیمی معاملات و مسائل کو میڈیا کی زینت بنانے کے بالکل حق میں نہیں ہیں۔

کیونکہ تنظیم اس وقت حالت جنگ میں ہے اور اپنے سے کئی گنا طاقتوار دشمن سے نبردآزما ہے۔ بدقسمتی سے نام نہاد ہائی کمان کی طرف سے جاری، رازداری کی دھجیاں اڑانے والی مزاحقہ خیز اخباری بیان کے حوالے سے چند نقاط وضاحت طلب ہیں، جن کی وضاحت کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اسلیئے ہمیں مجبورا میڈیا کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بی ایل اے شدید انتظامی مسائل کا شکار رہی ہو، یہ مسائل بار بار خود کو دہرارہے ہیں جو اس پہلے بھی بی ایل اے کے دو لخت ہونے پر منتج ہوئے۔ یو بی اے کے قیام اور آپسی کشت و خون تک بنیادی مسئلہ بی ایل اے میں با ضابطہ فیصلہ ساز اداروں، تقسیمِ اختیارات، واضح اصولوں و ضوابط کا نا ہونا تھا دیگر آزادی پسندوں سے معمولی نوعیت کے مسائل پر شدید اختلافات اور دوریاں اس بات کا ثبوت ہیں۔

 بار بار ان بڑھتے مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے جب بی ایل اے کے کچھ سینئر کمانڈران نے اداروں کے قیام اور تحریری اصول و ضوابط کی ضرورت و انفرادی فیصلوں کے بجائے اداروں پر زور دیا، تو ان حقیقی مسائل کو چھپانے کیلئے یہ غیر حقیقی مسائل کھڑے کرکے انہیں اصول و جوابدہی کا نام دیا گیا۔ ماضی کی طرح  تنظیم اور تنظیمی طریقہ کار کو نظر انداز کرکے سوشل میڈیا اور اخباری بیانات کا سہارا لیا گیا، تاکہ بی ایل اے میں انفرادی فیصلوں کی روایت قائم رکھی جاسکے۔ جب اس طرح کے رویے دوسرے کئی مسائل میں شدت کے ساتھ دِکھائی دینے لگے تو پھر یو بی اے کے قیام سے متعلق جو کرپشن و چوری کے الزامات لگائے گئے تھے ان کے صحت پر بھی شکوک بڑھنے لگے، یہ گمان قوی ہوتا گیا کہ مرحوم خیر بخش مری بھی انہی رویوں کے باعث ہی الگ ہونے پر مجبور ہوئے تھے اور باقی تنظیمیں جو ایک وقت بی ایل اے کے ساتھ جدوجہد کررہے تھے، وہ بھی انہی رویوں کے باعث الگ ہوئے۔ انہی مسائل کے روک تھام کیلئے جب بی ایل اے کے کچھ سینئر کمانڈران نے زور ڈالی کے اب بی ایل اے کو شخصی فیصلوں سے نکال کر باقاعدہ جمہوری اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے، تمام فیصلہ سازی کے اختیارات شخص واحد کے ہاتھ میں رکھنے کے بجائے جمہوری طریقے سے تقسیم کیے جائیں اور ذاتی مزاج و خیال کو اصول و ضابطہ کہنے کے بجائے اب بی ایل اے کے اندر باقاعدہ تحریری اور متفقہ اصول و ضوابط لائیں جائیں۔ درج بالا عوامل بی ایل اے کو حقیقی ادارہ سازی کی طرف لیجاسکتے ہیں اور بی ایل اے شخصی اجارے سے نکلنے میں کامیاب ہوسکتی ہے، لیکن اسٹیٹس کُو کو قائم رکھنے کیلئے، من گھڑت الزامات کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا جسمیں دشمن کے سرکاری بیانیہ کا خیال بھی نہیں رکھا گیا جو وہ تحریک کے خلاف شروع دن سے سامنے لائی جارہی ہے کہ یہ قومی تحریک نہیں پڑوسی ممالک کی پراکسی وار اور مذہبی شدت پسندی سے جڑی جنگ ہے۔

 آزاد بلوچ اور اب ہائی کمان کے نام سے جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان میں کوئی سچائی نہیں۔ ان الزامات کا بنیادی مقصد تنظیمی کارکنان اور بلوچ عوام کے سامنے اختلافِ رائے رکھنے والے سینئر کمانڈران کے کردار کو متنازعہ بنا کر خود کو بری الذمہ ٹہرانا ہے، یہ نئی روش نہیں بلکہ اس سے پہلے یوبی اے کا مسئلہ ہو یا بہت سے باقی امور اسی طرح اختلافِ رائے رکھنے والوں پر من گھڑت الزامات لگا کر قوم کے سامنے کردار کشی اور خود کو بری الذمہ کرنے کی سعی کی جاتی رہی ہے۔ اسی لیئے مزاحقہ خیز بیانات بلا کسی ربط کے کبھی انڈیا کا پراکسی ہونے کی بات کرتے ہیں تو کبھی ایران کا، یہاں قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اندرونی مقابلہ بازی کیلئے کس طرح دشمن کا کام آسان بنا کر، دشمن کے ان الزامات کی تصدیق کی جارہی ہے کہ یہ بلوچ تحریک بیرونی قوتوں کا پراکسی وار ہے۔ یہ امر خود اس غیر سنجیدگی کا عین مظہر ہے، جو ذاتی عناد میں تحریک کو داو پر لگانے سے نہیں کتراتی۔ سب سے زیادہ مزاحقہ خیز بات یہ ہے کہ اس سیاسی نابالادگی کو اصول و جوابدہی کا نام دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بار کہنے کے باوجود آج تک تنظیم کا کوئی بھی باضابطہ اصول و ضابطہ تشکیل نہیں دیا گیا، اب اگر اصولوں کی بات ہوتی ہے تو کیا قوم کے سامنے وہ اصول پیش کیئے جاسکتے ہیں جن کو توڑنے کا الزام لگایا جارہا؟ اگر ایسی کوئی اصول نہیں، جسے قوم یامحض بی ایل اے کے تمام کارکنان کے سامنے ایک تحریری صورت میں ہی پیش کی جاسکے، تو پھر اسکے ساتھ ہی اصول و ضوابط توڑنے کی باتیں از خود دم توڑ دیتی ہیں، اگر ذاتی مزاج اور انفرادی فیصلوں کو اصول کہا جائے جو ہر وقت اور ہر ایک کے ساتھ مختلف رہتے ہیں، جمہوری اقدار میں ایسے اصولوں کی کوئی وقعت نہیں رہتی جو اجتماعی شعور کا حاصل ہونے کےبجائے فرد واحد کے زبان سے نکلے الفاظ ہوں۔ جئیند بلوچ نے کہا کہ حالیہ صورتحال کو مدِنظر رکھ ہم اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ ان مسائل کے ہوتے ہوئے دشمن سے جنگ ہر صورت بلوچستان کی آزادی تک جاری رکھی جائے گی۔

ہم محاذ جنگ میں دشمن کے خلاف برسرپیکار کسی بھی تنظیم گروہ یا سنئیرترین کمانڈران حتیٰ کہ ایک سپاہی تک کے فرائض میں رخنہ اندازی کو بدترین جنگی و قومی جرم سمجھتے ہیں لہٰذا ہم ایسے  کسی بھی عمل کی حمایت نہیں کرینگے اور نا ہی اسکو تسلیم کرینگے۔

بلوچ قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والے افراد یا ادارے چاہئے وہ صحافی  ہی کیوں نہ ہوں ان سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی، قومی مفادات پر ذاتی اور گروہی سیاست کی ہم پرزور مخالفت کرتے ہیں ایسے کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔

ماضی کے تلخ تجربات اور موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اتحاد اور اشتراک عمل پر کسی بھی طرح کے اختلافات کو ترجیح نہیں دینگے بلکہ اختلافات کے حل وحالات کو سازگار بنانے کےلئے باہمی اعتماد کی بحالی پر زور دیں گے اور تنظیم سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کے اکثریتی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے بی ایل ایف سے جاری اشتراک عمل اور یو بی اے سے جنگ بندی کو حتمی شکل دینے کیلئے باضابطہ کوششوں کو تیز کیاجائے گا اور دیگر مزاحمتی آزادی پسند تنظیموں سے رابطوں کو تیز کیا جائے گا-

 بی ایل اے کے تمام  ساتھیوں اور ہمدردوں کو سوشل میڈیا کے کج بحثی سے دور رہنے  اور حساس نوعیت کے قومی مسائل پر رائے دینے یا ان کو زیر بحث لانے سے محتاط رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔