بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے ترجمان نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دیکھا جائے اس صوبے کی واحد بڑی یونیورسٹی اس وقت کہی بنیادی سہولیات سے محروم ہے ۔خصوصاً بوائز ھاسٹل میں کوئی بنیادی سہولت نہیں ہے ایسا لگتاہے کہ ھاسٹل یونیورسٹی انتطامیہ کے ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے کیونکہ وائس چانسلر،رجسٹرار سمیت کوئی بھی اس حوالے سے سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا ہے اور نہ اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدامات کر رہے ہیں جب طلباء شکایت لے کر جاتے ہیں تو ان کے باتوں کو غیر سنجیدہ لے کر نظر انداز کیا جا رہا ہے اگر ھاسٹل میں سہولیات کی بات کیا جائے تواس جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے وائی فائی کا سسٹم کتنے سالوں سے خراب ہے جو صحیح ہونے کا نام ہی لے رہا ہے اس دور میں کالج اور یونیورسٹیاں اپنی جگہ اسکول سطح پہ لائبریری کی سہولت کو لازمی قرار دیا جاتا ہے لیکن یہاں یونیورسٹی ھاسٹل میں ریڈنگ روم اور لائبریری کی سہولت نہیں ہے حالانکہ اس حوالے سے 2015 کورجسٹرار، پروفیسر ڈاکٹر اکرم دوست نے ھاسٹل کا دورہ کرکے طلباء کو یہی یقین دہانی کرائے کہ جلد از جلد ھاسٹل میں لائبریری قائم کیا جائے گا اور اس کے بعد اس سال کے شروع میں ہماری تنظیم کے جانب سے وائس چانسلر سے ملاقات کے دوران ھاسٹل میں لائبریری کے حوالے سے زور دیا گیا لیکن پہلے کی طرح یہ بھی صرف دعوے ثابت ہوئے اس سے آگے اور کچھ نہیں ۔ ترقی کے نام پر ظاھری شوشے اور بڑے بڑے دعوے تو بہت ہو رہے ہیں لیکن جب ان دعوؤں کو لے کر حقیقت کو دیکھا جائے تو یہ دعوے دم توڑ دیتے ہیں ۔
ترجمان نے مزید کہا کہ صوبے کی واحد بڑ ی یونیورسٹی کے ھاسٹل کا اس جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں انٹرنیٹ ،ریڈنگ روم اور لائبریری کی سہولت سے محروم ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔لہذا ہم ہائرایجوکیشن کمیشن اور چانسلر گورنر بلوچستان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ حوالے سے نوٹس لے کر ان بنیادی مسائل کو حل کریں۔