بلوچستان کے لئے 2017 کا سال بھی پرتشدد رہا : بی ایس او آزاد

236

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گذشتہ کئی سالوں کی طرح 2017ء بھی بلوچستان کیلئے پرتشدد سال رہا۔ بلوچستان میں ہر گزرتے سالوں کی طرح اس سال بھی ریاستی جبر و بربریت میں بے انتاء اضافہ ہوا ، فوجی آپریشن ، جبری گمشدگیاں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگیوں جیسے واقعات میں کمی کے بجائے تیزی لائی گئی جبکہ فوجی آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں نقل مکانی بھی جاری رہا

۔2017ء میں خواتین و بچوں پر بھی ریاستی جبر و بربریت میں اضافہ دیکھنے کو آیا ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، نصیر آباد، ہرنائی، مشکے ، آواران ، کولواہ ، دشت سمیت متعدد علاقوں میں فوجی آپریشن کے دوران فضائی فوج کی بمباریوں کے دوران ان علاقوں میں متعدد خواتین و بچے شہید و زخمی ہوئے جس کی حالیہ مثال دسمبر کے ابتداء میں ضلع واشک کے علاقے راغے میں فوجی آپریشن کے دوران فضائی بمباری سے 10خواتین و بچے شہید ہوئے جبکہ خواتین و بچوں کے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ بھی دیکھنے کو آیا بلوچ رہنماء ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی اہلیہ و کمسن بچی ، اسلم بلوچ کی ہمشیر ہ و بچوں سمیت ایک اور خواتین کو کمسن بچی سمیت کوئٹہ سے اغواہ کیا گیا پھر عوامی دباؤ کے باعث ان کو رہا کیالیکن ان خواتین کے ساتھ اغواہ کیے گئے اسلم بلوچ کے بھانجے تاحال لاپتہ ہیں ، مشکے ، راغے، دشت، ہرنائی، ڈیرہ بگٹی سمیت متعدد علاقوں میں بھی فوجی کاروائیوں کے خواتین و بچے گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے گئے۔ جبکہ کراچی سے انسانی حقوق کے کارکن نواز عطاء کے ساتھ کمسن آفتاب بلوچ، الفت بلوچ اور دیگر ساتھ نواجوان طالب علموں کو گرفتار کرکے لاپتہ کیا جن کوتاحال نہ رہا کیا گیا اور نہ ہی منظر عام پر لایا گیا ۔

ترجمان نے کہا کہ 2017ء میں بی ایس او آزاد بھی شدید ریاستی جبر کا شکار رہا 15نومبر کو تنظیم کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ کو مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ ، نصیر احمد سمیت بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کے ہمراہ کراچی سے سندھ رینجرز کے باوردی اہلکاروں نے گرفتار کرکے لاپتہ کردیئے جو تاحال ریاستی حراست میں ہیں ۔ترجمان نے مذہبی انتاپسندی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 2017ء میں بھی ماضی کی طرح مذہبی انتاپسندانہ کاروائیاں جاری رہے ہیں ریاست بلوچستان میں مذہبی انتاپسندی کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے جس سے نہ صرف بلوچ عوام متاثر ہے بلکہ بلوچستان میں رہنے والے ہزارہ برادی اور پختون قوم بھی متاثر ہے ریاست کے مذہبی جنونی پالیسیوں نے بلوچستان سمیت پورے خطے کو مذہبی انتاپسندوں کے محفوظ پناہ گاہوں میں تبدیل کیا ۔

ترجمان نے تعلیمی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 2017ء میں بھی ریاست نے عوام دشمن تعلیمی پالیسویں کو برقرار رکھا اور بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں کے عمارتوں میں عسکری اداروں کے قبضوں کا سلسلہ بھی جارہی رہا جبکہ بلوچ طلباء کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی مثال گذشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی کے مین کیمپس سے بلوچ طلباء صغیر احمد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا ۔ترجمان نے بلوچستان کے صورتحال کے حوالے سے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ماضی کی طرح 2017ء میں بلوچستان کے پر تشدد صورتحال کے حوالے سے میڈیا کا کردار انتائی مایوس کن رہا ، فوجی آپریشن کے دوران فضائی بمباریاں ، خواتین و بچوں کی فضائی بمباریوں سے اموات ، کوئٹہ و کراچی جیسے بڑے شہروں سے خواتین و کمسن بچوں اور نوجوان طلباء رہنماؤں کی جبری گمشدگیاں سمیت بلوچستان بھر میں پرتشدد کاروائیاں بھی مین سٹریم میڈیا کے توجہ کے باعث نہیں بن سکے اس کے برعکس میڈیا نے بلوچستان میں ریاستی ترجمانی کا کردار ادا کرکے صرف عسکری اداروں اور نام نہاد سویلین حکومت کے بیانیہ کی تشہیر کرتے رہے ۔

ترجمان نے عالمی میڈیا کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی میڈیا اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے انصاف کرکے سال 2017ء میں بلوچستان کے صورتحال کے حوالے سے غیر جانبدارانہ ررپورٹنگ کرکے پورے سال ریاستی جبر و بریریت سے متاثرہ علاقوں کے حقائق سے اقوام عالم کو آگاہ کریں۔ترجمان نے آخر میں اقوام متحدہ اوربین القوامی انسانی حقوق کے تنظیموں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق اقوام متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جنگ زدہ خطے میں اپنے فیکٹ فائنڈینگ مشن روانہ کرکے بلوچستان کے اصل صورتحال کا جائزہ لیں اور بلوچستان کے شہریوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کریں ۔