بلوچ آزادی پسند رہنمااور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابق چیئرمین بشیر زیب بلوچ نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں قومی آزادی کی موجودہ تحریک قومی قربانیوں کے طفیل کامیابی کے ساتھ جاری ہے،اور مقصد تک جاری رہیگا موت جہاں بھی جیسے بھی اپنوں کی یا غیروں کی ہاتھوں میں نصیب ہوگا اس کا کوئی فکر و غم نہیں، سب سے اہم اور بنیادی ترجیح قومی مقصد کا حصول ہے ،قومی مقصد کی پختہ یقین کے ساتھ قومی آذادی کی جنگ نے آج دشمن کو جس طرح حواس باختہ کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے ریاستِ پاکستان تمام عالمی ضابطوں اور جنگی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلوچستان میں ظلم وجبر بازار گرم رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بد ترین جنگی حالات میں بھی عالمی جنگی قوانین تمام فریقوں کو پابند رکھتی ہے کہ وہ عورتوں، بچوں اور عام شہریوں کو نشانہ نا بنائے لیکن پاکستانی فورسز آئے روز بلوچ خواتین و بچوں کو بے دردی کے ساتھ شہید و اغواء کررہی ہے اور عام شہری آبادیوں پر بلا اشتعال گولہ باری و شیلنگ اب بلوچستان میں معمول بن چکا ہے، ان سنگین انسانی حقوق و جنگی قوانین کے خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے کے باوجود پاکستان جس آزادی کے ساتھ بیرونی امداد وصول کرتا ہے، گوادر سی پیک جیسے معاہدات کی صورت میں اس خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ کر نئے جنگوں کی بنیاد ڈال رہا ہے، یہ خود ایک بہت بڑا المیہ ہے، یہ نا صرف بلوچ قوم، علاقائی قوتوں بلکہ امن عالم کیلئے خطرے کی ایک ایسی گھنٹی ہے اگر اسکا قبل از وقت نوٹس نہیں لیا گیا، تو پھر یہ عالمی امن کیلئے نا سور بن جائے۔
بشیرزیب بلوچ نے کہا ہے کہ آج بلوچستان میں گوادر تا ڈیر غازیخان کوئی جگہ بلوچ کیلئے محفوظ نہیں ،نام نہاد سی پیک کو کامیاب کرنے کیلئے خاص طور پر اسکے شاہراہ اور دوسرے منسلک منصوبوں سے ملحقہ علاقوں سے بلوچوں کا صفایا کیا جارہا ہے۔ اسی غرض سے ان علاقوں میں آئے روز شدید پیمانوں کے فوجی آپریشنز ہورہے ہیں، اب تک سینکڑوں شہید و اغواء کئے جاچکے ہیں، بلوچ آبادیوں کو معاشی طور پر مفلوج کیا جاچکا ہے، تاکہ وہ نقل مکانی پر مجبور ہوجائیں، جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں بلوچ آئی ڈی پیز کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ان گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بلوچستان میں قائم نام نہاد کٹھ پتلی اسمبلی ہمیشہ پیش پیش ہے، بلوچستان میں اسمبلی کا مقصد ہی فوج کے ہاتھوں پر لگے خون کے دھبوں کو دھونا ہے اور دنیا کے سامنے جمہوریت کا سراب پیدا کرنا ہے، جمہوریت کے اس ڈرامے کو دوبارہ دہرانے کیلئے بلوچستان میں ایک بار پھر اگلے سال الیکشن کا ڈرامہ رچایا جانے والا ہے، جس کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ گذشتہ چار سال کے دوران جن ڈیتھ اسکواڈوں نے بلوچ قتل عام میں فوج کی درست معاونت کی انہیں پارلیمانی نشستوں کی صورت میں انعام و اکرام سے نواز کر انکی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ یہ سلسلہ چلاتے رہیں، لیکن دنیا کے سامنے جمہوریت کا ڈھکوسلہ چھوڑنے کیلئے وہ ان سلیکٹڈ لوگوں کیلئے الیکشن کا ڈرامہ رچائیں گے، بلوچ قوم جس طرح گذشتہ الیکشنوں سے دور رہ کر انہیں مکمل طور پر ناکام کرنے میں کامیاب ہوئی وہ اس سال بھی بلوچستان میں عام پاکستانی الیکشن سے مکمل دور رہ کر دنیا کے سامنے پوری طرح یہ واضح کریں کہ ہمارا پاکستان اور اسکے کسی بھی طرح کے اسمبلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
چیئرمین بشیر زیب نے کہا کہ ہم قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ الیکشن اور الیکشن سے جڑے کسی بھی عمل سے دور رہ کر آنے والے پاکستانی الیکشن کے دن اپنا ایک قومی و تاریخی مزاحمت اور احتجاج دنیا میں ریکارڈ کرکے قوم دوستی و وطن دوستی کا ثبوت دیں۔
بشیر زیب بلوچ نے مزید کہا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر باہر بیٹھا ہواایک مخصوص لابی بلوچ رہنماؤں اور تنظیموں کے بابت نا صرف غلیظ زبان استعمال کررہا ہے بلکہ بہت سے معاملات میں سیاسی کارکنوں و رہنماؤں کا نام و مقام اور حساس تحریکی معلومات افشاں کرکے دشمن کا کام آسان کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے، شاید اب یہ بات انتہائی واضح ہوچکی ہے کہ انکا تعلق کس قبیل سے ہے، میں تمام سیاسی کارکنوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں، گذشتہ تلخ تجربات سے اب یہ کم از کم واضح ہوجانا چاہیے کہ سوشل میڈیا ایک ایسی جگہ نہیں، جہاں بلوچ قومی تحریک کے کمزوریوں اور مسئلوں کا حل موجود ہو بلکہ یہاں مسائل پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔ اس لئے کوئی مشتعل نا ہو، کوئی اگر الزام تراشی من گھڑت پروپیگنڈہ کرتا ہے اور کیچڑ اچھالتا ہے تو اچھالنے دیں، کردار کا تعین عمل و تاریخ کرتا ہے سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ باہر بٹھاہوا ایک مخصوص گروہ ناصرف سوشل میڈیا پر ہلڑ بازی اور بدترین کردار کشی میں ملوث ہے بلکہ وہ باقیوں کو مشتعل کرکے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں تاکہ وہ الزام دوسروں پر ٹہرا کر اپنے کردہ گناہوں کو بھی اسی میں چھپا دیں۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تمام سیاسی کارکن تمام کیچڑہ اچالنے الزام تراشیوں منفی پروپیگنڈوں کی منفی اعمال کو نظر انداز کرکے ان پر بالکل توجہ نہ دیں، بلکہ اپنے کام و مقصد اور دشمن پراپنی توجہ مرکوزکریں۔
انہوں نے مزید کہا بلوچ تنظیموں اور رہنماؤں کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری یہ ہرزہ سرائی ہرگز قابلِ قبول نہیں۔اگر جو بھی اس غیر ضروری غیر سنجیدہ اور انتہائی نقصاندہ اور بچگانہ عمل کا حصہ ہوگا اس سے ہماراکوئی تعلق نہیں ہے اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ موجود دور میں سوشل میڈیا عوامی میڈیا بن چکا ہے اور اسکا بہتر استعمال بلوچ مسئلے کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتا ہے۔ بلوچ نوجوان، لکھاری اور بلاگر سوشل میڈیا کا استعمال بلوچ تحریک کی ترویج، بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں اور بلوچ نوجوانوں کے ذہنی تربیت کے لئے استعمال کریں اور ساتھ ساتھ اپنے عظیم شہیداء کی کرداروں کو قوم اور دنیا کے سامنے آشکار کریں ۔