ایشیاء ہمیشہ سے بیرونی حملہ آوروں کے لیے پرکشیش رہا ہے۔مزہبی سیاسی معاشی مقاصد لے کر آنے والے ان حملہ آوروں نے یہاں کے سماجی ترقی کو روکے رکھا اور لوٹ کسوٹ کا بازار گرم رکھا۔مقبوضہ دور میں ثقافت و روایات پر شدید حملہ کی جاتی ہیں جسکی وجہ سے اپنی اصل شکل میں قاہم نہیں رہ پاتی” قبضہ گیریت کے خاتمے کے بعد ان اقوام کو اپنی ثقافت و اقدار کو دوبارہ اصل روح میں لانے کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتی ہے .
“سماجی ترقی کا عمل رک جاتی ہے یا تو سست روی کا شکار رہتی ہے” ۔آج بھی اگر ہم جائزہ لیں تو اس خطے کو شدید خطرات لاحق ہیں۔آج بھی یہاں کی تہزیبں اور اقوام کو اپنی بقاء کو لیکر شدید تحفظات ہیں اسی سبب یہاں سیاسی اور مزاحمتی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ یہاں کی تہزیبیں اپنی جغرافیہ روایات کی حفاظت کے لیے جانی اور مالی قربانیاں دیتی رہی ہیں۔ سکندر اعظم سے لیکر عرب اور انگریز جارحیت تک ایشیاء کو حملہ آوروں کو زیر کرنے میں ناکامی رہی ہے۔یہاں بیرونی حملہ آور قبضہ کرنے میں کامیاب تو ہوے لیکن زیادہ عرصے تک ٹک نہ سکیں اسکی بنیادی وجہ یہاں کی قدیم تہذیب تھی جس نے قبضہ گیروں کو یا تو جزب کر کے انکا نشان میٹا دیا نہیں تو انکو صدی دو صدی بعد ناکام ہو کر لوٹنا پڑا۔
ایشیائی ثقافت و اقدار میں قابض و درآمد نے تبدیلی کی کوشیش کیں تاکہ قبضہ کو دوام مل سکے۔اس سے ایک بات بنتی ہے کہ” ثقافت ایک خاموش مگر پراثر مزاحمت رہا ہے ” اور “جو اقوام اپنی ثقافت سے جوڑی ہوتی ہیں وہ مقبوضہ ہونے کے باوجود ایک مضبوط مزاحمت بھی کررہے ہوتے ہیں” ۔ براعظم ایشیاء دنیا کی سب سے بڑی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے جس میں دنیا کی قدیم ترین ثقافتیں اور تہزیب یہاں اپنی وجود برقرار رکھے ہوے ہیں۔یورپ اور مغرب جدیدیت کا شکار ہو کر اپنی ثقافتوں کو از سر نو تشکیل دے کر سماجی اور سیاسی حوالے سے اس وقت دنیا کی رہنمای کا کردار ادا کر رہی ہیں۔اب سوال یہ بنتا ہے کہ ایشیاء جس میں قدیم اور اعلیٰ ترین ثقافتوں کا گڑھ ہونے کے باوجود آج دنیا کی ترقی کے عمل سے پیچھے رہ گی ہے۔چین ، ہندوستان ، بلوچستان ، افغانستان ،ایران ہمسایہ اور تاریخی حوالے سے قدیم اقوام اور تہزیبوں کا مرکز اور امین رہے ہیں۔ برطانوی غلامی اور نیم خود مختیار ریاستوں کےعوام پیچھلے دو صدیوں سے انسانی اقدار اور دنیاوی ترقی کے لیے نبرد آزماء ہیں ۔جن مساہل سے یہ اقوام نبرد آزماء ہیں ان میں سرفہرست آذادی ،تعلیم ۔ صحت۔معاشی و سیاسی استحقام، بھوک و افلاس کے علاوہ ایشیاء ، مذہبی اور ریاستی دہشتگردی ، نسل کشی جیسے مساہل سے گرا ہوا ہے ۔
ہندوستان آج بھی بیرونی جارحیت اور قبضہ گیروں کی جانب سے ثقافتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے اور اپنی تہزیب اور روایات کو اصل شکل و روح میں لانے کی جہد کر رہی ہے۔دوسری جانب اپنی آبادی کو تعلیم ، صحت ، بھوک و افلاس سے نکالنے کی تگ و دو میں مصروف عمل ہے وہی پہ ریاستی و مزہبی دیشتگردی کا سامنا کرنے کی وجہ سے اپنے ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاعی بجٹ پہ خرچ کرنے پر مجبور ہے جسکی وجہ سے دنیا کی کل آبادی کا چٹھا حصہ انسانی اقدار سے محروم ہے جسکی وجہ سے انسانی حقوق جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ چین میں پردوں کے پیچھے جس قتل عام کا چینی عوام کو سامنا ہے اسکی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔چین دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اسکی کل آبادی ڈیڈھ ارب سے زیادہ ہے۔ چینی عوام کو خود اپنی ہی حکومت کی جانب سے بدترین نسل کشی کا سامنا ہے۔چین میں انسانی غلامی کی بدترین شکل موجود ہے مگر اس پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ۔
آبادی کو کنٹرول کرنے کے نام پہ چین نے انسانی فطرت کے خلاف انسانی اقدار اور حقوق کو پامال کرتے ہوے ون چائلڈ پالیسی کے ذریعے انسانی مزاج اور قدرت کے قانون کے برخلاف بچہ پیدا کرنے کے حق کو حکومت نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے۔ چین میں اس وقت دنیا کی سب سے کم اجرت مزدور ملتے ہیں۔ جس سے عوام کی معاشی اور سماجی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگائی جاسکتی ہے۔اچنبے کی بات یہ ہے ک ایک ایسا ملک جس نے اپنے عوام کو انسانی اقدار و روایات کے بر خلاف رکھ کر انسانی حقوق و آزادی کو سلب کیا ہے اسے کس بنیاد پر سلامتی کونسل کا رکن مقرر کیا ہے اور حد تو یہ ہے کہ ایسے ملک کے ہاتھوں میں ویٹو پاور دے کر دنیا کے دوسرے اقوام جو انسانی آذادی اور انسانی اقدار کی سر بلندی کی جہد کر رہے ہیں انکی تقدیر کے فیصلے بھی چین جیسے غیر ذمہ دار ملک کے جولی میں ڈالی دی گئی ہیں۔ جسکی مثال مسعود اظہر جیسے لوگوں کی پشت پناہی کر کے عالمی قانون و انصاف کو اپنے ویٹو پاور کا ناجائز استعمال کر کے روک رہی ہے۔
ایسے ممالک جو خود انسانی غلامی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی طویل تاریخ رکھتے ہیں انکو ہرگز دوسرے اقوام کے فیصلوں کا حق نہیں دینا چاہیے نہیں تو انسانی آذادی کا خواب ہمیشہ ادھورا رہے گا۔ افغانستان بہحثیت ملک و قوم عظیم اقدار و روایات کا امین رہا ہے۔انکی تاریخ روز روشن کی طرح عیاں ہے بلوچستان کے ہمسایہ ریاست ہونے کی وجہ سے یہ دو ریاست اور اقوام ایک دوسرے کے حالات سے متاثر ہوے بنا نہیں رہ سکتے اسی وجہ سے سیاسی و ثقافتی اثرات ان دونوں اقوام کی تاریخ میں ملتی ہیں۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد ان دونوں ریاستوں کی جغرافیای تبدیلی کے ذریعے ان اقوام کو انسانی حقوق و آذادی کے حوالے سے انگاروں کی بٹی میں ڈال کر انسانی حقدار و آزادی کو نسل کشی بھوک و افلاس کے حوالے کیا گیا۔ڈیورنڈ لاین کو ہندوستان کے سازشی تقسیم کے بینٹ چڑا کر افغانستان کے علاقوں کو مزہبی بنیاد پرستی کے نام پہ بننے والی غیر فطری رہاست کے حوالہ کیا گیا۔ جسکی وجہ سے جنوبی اور شمالی وزیرستان کے عوام کو اج بھی کالے قوانین کا سامنا ہے۔مزہبی دہشتگردی کی وجہ سے ثقافتی معاشی استحصال اور نسل کشی کے ذریعے انسانی حقوق و آزادی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔اج بھی مزہب کی بنیاد پہ افغان عوام کو انکے اقدار و ثقافت سے دور رکھنے کے لیے بعض ریاستیں دہشتگردی کے ذریعے افغانیوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔انسانیت اپنی بقاء کی جہنگ لڑ رہی ہے بھوک و افلاس ، صحت و تعلیم کو دہشتگردی کے ذریعے افغان عوام کےلیے ناپید کیا جارہا ہے۔اس ریاست اور عوام کا سامنا ہندوستان کی جبری تقسیم سے پیدا ہونے والی ایک ایسے شیطان ریاست سے ہے جسکی بنیاد مکاری اورمذہبی بنیاد پرستی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں اس کالے باب کو شامل کر کے اس خطے کو اندھیروں میں جھونک دیا گیا۔ اج ہندوستان، افغانستان، چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دہشتگردی پہلا رہی ہے۔
پاکستان کے نام سے بننے والی اس ریاست میں اس ملک کے ہمسایہ ممالک سمیت اس کی اپنی عوام بھی ریاستی اور مزہبی دہشتگردی کا شکار ہیں۔یہاں بھوک افلاس ، جہالت ، فرقہ واریت ،اقلیتوں کا قتل عام، عورتوں کی قتل و غارت گری انسانیت کو نگلتی جا رہی ہیں۔ریاست اپنی ناکامیوں کو ہمسایہ ممالک کے سر تھونپ رہی ہے جبکہ اصل ذمہ دار اشرافیہ ہے جس نے ایک درجن کے قریب اقوام اور علاقوں کو اپنے غیر فطری قبضہ میں رکھا ہے۔بنگلادیش کی عوام نے تیس لاکھ انسانی جانوں کو اس ریاستی دہشتگری کے سامنے قربان کر کے انسانی آذادی کے تاریخ میں اپنا نام درج کروا دی ہے ۔ جو علاقے آج بھی اس جبر کا مقابلہ کر رہی ہیں ان میں افغانستان کے علاقے جو ڈیورنڈ لائن کے ذریعہ سے تقسیم کی گی ہیں۔ہندوستان کا سرحدی علاقہ گلگت بلدستان کشمیر کا ایک حصہ جس پر آج بھی پاکستان قابض ہے یہاں کے عوام بھی کسی مسحیا کے انتظار میں ہیں جو انکے آذادی اور حقوق کے لیے آواز بلند کرے۔
شعور و سیاسی عمل سے آنے والے وقت میں یہاں بھی انسانی آذادی کے کے لیے تحریکیں شروع ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔اس ریاست کے آس پاس یا اندر بسنے والی اقوام ہی باقی دنیا کی نسبت سب سے زیادہ متاثر ہیں جنکی شناخت ،جغرافیہ کو ریاستی طاقت اور ریگولر آرمی کو استعمال کر کے ردوبدل کرنے کی کوشش جاری ہے۔ یہاں کے مقبوضہ علاقوں کے وساہل کو چین کو شامل کر کے لوٹا جارہا ہے۔ انسانی بقاء و آزادی کے لیے یہاں شروع دن سے تحریکیں جہنم لے چکی ہیں جن میں سب سے نمایاں تحریک مقبوضہ بلوچستان میں چل رہی ہے کافی حد تک کامیابی کے ساتھ اگے بڑ رہی ہے۔ایشیاء میں امن و سکون اور انسانی ترقی کے لیے اس شیطان کو ایشیاء سے نکالنا ہو گا تب ہی انسانوں کی اس قدیم بستی کو جدید دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔