امریکہ کا یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنےپر مسلم ممالک کی تنقید

385

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔ وائٹ ہاؤس سے اپنے براہِ راست خطاب میں، ٹرمپ نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا جائے گا۔

یروشلم مسلمان، یہودی اور مسیحی مذاہب کا مقدس ترین شہر ہے۔ یہ معاملہ ایک طویل عرصے سے مشرق وسطیٰ امن عمل کی راہ میں حائل رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے سے مشرق وسطیٰ کے ’’دو ریاستی حل‘‘ پر کسی قسم کا کوئی اثر پڑے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یروشلم نہ صرف تین عظیم مذاہب کا دل ہے، بلکہ اب یہ دنیا کی ایک کامیاب ترین جمہوریت کے دل کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔

بقول اُن کے گذشتہ سات عشروں کے دوران، اسرائیلی عوام نے ایک ایسا ملک تشکیل دیا ہے جہاں یہودی، مسلمان، مسیحی اور تمام عقائد کے لوگ آزادانہ طور پر رہتے ہیں، اور اپنے ضمیر اور عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔

اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ایک قابلِ قبول امن سمجھوتا طے کرنے کے لیے سہولت کار کے طور پر مدد دینے کے معاملے پر دل کی گہرائی سے قائم ہے۔

اُن کے الفاظ میں، ’’میرے بس میں جو کچھ بھی ہے، اُسے کرنے کا خواہاں ہوں تاکہ کوئی سمجھوتا طے پا جائے‘‘۔

تمام عرب اور مسلمان ملکوں نے یہ متنازع فیصلہ کرنے کے خلاف متنبہ کیا تھا، جس سے، اُن کے بقول، خطے میں تناؤ بھڑک اٹھے گا اور عرب اسرائیل امن سمجھوتا طے کرنے کی امریکی کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔

تاہم، صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس اقدام کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پائیدار امن کا سمجھوتا طے کرنے میں سہولت کار بننے کے اپنے عزم سے ہٹ رہے ہیں۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ یروشلم کے بارے میں کسی حتمی فیصلے پر مبنی مؤقف اختیار نہیں کیا جا رہا ہے، جس میں یروشلم کی مخصوص سرحدوں سے متعلق اسرائیلی اقتدار اعلیٰ یا متنازع سرحدوں کے حل کا معاملہ شامل ہے۔ یہ سوال متعلقہ فریق کو ہی طے کرنا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام فریق پر زور دیا کہ یہودی مقدس مقامات، جن میں ’ٹیمپل ماؤنٹ‘، جسے ’حرم الشریف‘ بھی کہا جاتا ہے، اُن کا جوں کا توں درجہ جاری رکھا جائے۔ سب سے بڑھ کر، ہماری سب سے بڑی توقعات امن سے وابستہ ہیں، جو تمام انسانوں کی روح کی آفاقی آواز ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے اس فیصلے کو ’’تاریخی سنگِ میل‘‘ قرار دیا۔ فیس بک وڈیو پر، نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل کی تاریخی اور قومی شناخت کا آئے روز اہم اظہار سامنے آ رہا ہے، خاص طور پر آج کا۔

مسلم ممالک نے اس امریکی فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے اور اس حوالے سے او آئی سی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے۔ تاہم، فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا اعلان امریکہ کی جانب سے امن مصالحت کے کردار سے دستبردار ہونے کا مترادف ہے۔ حماس کے سربراہ، اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر کے ہمارے فلسطینی اس سازش کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اور اُن کی جانب سے اپنی سرزمین اور اپنے مقدس مقامات کے دفاع کے تمام راستے کھلے ہیں۔