امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 700 ارب ڈالر کے دفاعی بل پر دستخط کردیئے، جس میں افغانستان میں امریکی فوجی آپریشن کی حمایت پر پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر بھی دیئے جائیں گے۔
امریکی صدر نے گذشتہ روز ملک کے وسیع دفاعی پالیسی کے بل پر دستخط کیے، جس میں شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے میزائل ڈیفنس پروگرامز پر اضافی اخراجات کی منظوری شامل ہے۔
امریکی کانگریس کی جانب سے گزشتہ ماہ نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ 2018 کو منظور کیا گیا تھا، ساتھ ہی کولیشن سپورٹ فنڈ (سی ایس ایف) کی مد میں پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر دینے کی بھی منظوری دی گئی تھی تاہم اس امداد کی آدھی رقم مشروط ہے اور یہ اس وقت جاری کی جائے گی جب امریکی سیکریٹری دفاع اس بات کی منظوری دیں گے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف واضح اقدامات کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی سیکریٹری دفاع ایسٹن کارٹر اور جیمز میٹس نے گزشتہ دو بجٹس میں انتظامیہ کو پاکستان کی امداد روکنے کے لیے اس طرح کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کردیا تھا۔
گذشتہ روز دستخط کیے جانے والے بل جو اب قانونی شکل اختیار کرگیا ہے، اس میں کانگریس کی جانب سے پابندیاں بھی شامل ہیں جبکہ اب تک اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ہے کہ امریکا کے سیکریٹری جیمز میٹس پاکستان کو درکار سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں یا نہیں۔
قانون میں پینٹاگون کو واشنگٹن کے سیکیورٹی مشاورت کی ضرورت ہے کہ وہ اس بات کا یقین کرسکے کہ پاکستان اس رقم کو دہشت گرد گروپوں کی مدد کے لیے استعمال تو نہیں کر رہا۔
بل کے پہلے ورژن میں سیکریٹری دفاع سے پوچھا گیا تھا کہ وہ واضح کریں کہ پاکستان نے اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہوئے حقانی نیٹ ورک اور لشکر طیبہ کو پاکستانی علاقوں کو محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔
تاہم جب امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ نے نیشن ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ (این ڈی اے اے) 2018 کا مشترکہ ورژن جاری کیا تو اس میں انہوں نے اس فہرست سے لشکر طیبہ کا نام خارج کردیا تھا اور صرف حقانی نیٹ ورک پر توجہ مرکوز کردی تھی۔
یہ پہلا اشارہ تھا کہ اگر اسلام آباد، کابل میں مدد کرنے پر راضی ہوتا ہے تو امریکا، پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات میں لچک دکھا سکتا ہے۔
موجودہ قانون کے مطابق امریکی سیکریٹری اس بات کا اعلان کریں کہ افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حمل محدود کرنے کے لیے پاکستان، افغانستان کے ساتھ کر رہا ہے اور حقانی نیٹ ورک کے سینئر اور رہنماؤں اور کارندوں کو گرفتار کرنے کے لیے بھی پیش رفت کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ورژن میں لشکر طیبہ کے لیے بھی اسی طرح کا اعلان کا کیا گیا تھا لیکن موجودہ قانون میں ایسا نہیں ہے۔
این ڈی اے اے 2018 میں پاکستان میں موجود مسیحی، ہندو، احمدیوں، سندھیوں، ہزارہ اور بلوچوں سمیت مختلف سیاسی و مذہبی گروہوں کے خلاف مبینہ سازش پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
قانون میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکی سیکریٹری دفاع اس بات کو یقینی بنائیں کہ امریکا کی جانب سے دی گئی کسی بھی امداد کو پاکستان ان اقلیتی گروپوں کو تنگ کرنے کے لیے استعمال نہیں کرے گا۔