اظہار رائے کی آزادی ـــ اسد بلوچ

478

صحافت کو موجودہ دنیا میں ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے ۔ ر ائے عامہ کو کسی جانب موڑنے یا کسی مسئلے پر عوام کو معلومات دے کر باخبر بنانے میں میڈیا کا کردار انتہائی اثر پزیر ہوگیا ہے۔ مہذب یا جدید دنیا میں اصولوں کے مطابق میڈیا کسی پس و پیش یا ریاستی اثر پزیر ی کے بغیر اپنے طے کردہ اصولوں کے تحت کام کرنے میں آزاد ہے. جبکہ ترقی پزیر ممالک، شاہی یا آمرانہ طرز پر قائم ریاستیں یا ایسے کمزور ممالک جہاں عوامی بیداری کی تحاریک چل رہی ہیں، وہاں میڈیا کو آذادانہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے تمام ممالک میں میڈیا ریاست کے براہ راست بالواسطہ کنٹرول میں ہے۔ ا نہیں ریاستی پالیسیوں کے مطابق کام کرنے ، رائے عامہ کو اصل صورتحال کی جانب موڑنے یا انسانی حقوق کی درست عکاسی کی اجازت نہیں ہے ۔

ایسے ممالک جن میں میڈیا کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت نہیں اور ان پہ پابندی ہے پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں پہلی بار الیکٹرانک میڈیا کو نشریات کے لیئے لائسنس جاری کیئے گئے اس سے قبل صرف پی ٹی وی حالات حاضرہ اور خبروں کا واحد زریعہ تھا. البتہ اخبارات کی سرکولیشن بڑی تعداد میں موجود تھی۔ پرویز مشرف اور اس کے بعد بڑی تعداد میں الیکٹرانک میڈیا کو لائسنس جاری کیئے گئے. جس سے نیوز چینلز کے ساتھ اسپورٹس اور انٹر ٹینمنٹ چینل کی بھر مار ہوگئی۔گوکہ وسیع پیمانے پہ میڈیا ہاؤسز نے کام کا آغاز کیا ایک ہی ادارے نے کئی چینلزکی نشریات شروع کیں۔ ایک طرح سے پاکستان میں میڈیائی مقابلے کا آغاز ہوا جس کے منفی اثر زیادہ مثبت کم ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ چینل کی تعداد بڑھ گئی تو پیشہ ور صحافیوں کے ساتھ غیر پیشہ ور اور ناتجربہ کار لوگ صحافی بنا کرچینلز میں بٹھا دیئے گئے. اسے ایک رجحا ن کی صورت میں تمام چینلز نے آزمایا ہر روز ہر چینل پر ایک نئی صورت اینکر بن کر نمودار ہوئی۔ پرائم ٹائم پروگرامز، عمومی ٹاک شوز اور مارننگ شو میں اخلاقی حدود، سماجی رویوں اور صحافتی اصولوں کی دھجیاں اڑانے کی مشق کی گئی حتی کہ آزادی کے نام پہ میڈیا شخصیات کی بیڈ رومز اور گھریلو زندگی میں دخل اندازی کرنے لگا اور اسے ڈھٹائی سے آزاد صحافت کا نام دیا گیا۔ اس عمل سے خود میڈیا نے اپنے اصولوں اور ساتھ میں آزادی کی راہیں مسدود کیں۔

اس غیر زمہ دار میڈیائی مقابلے کے درمیاں چند ایک چینل ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے اپنا ایک اصول طے کرنے کی کوشش کر کے آزاد صحافت کی جانب سفر کرنے کی کوشش کی جب کہ بیشتر چینل نے ان کے مقابلے میں ریاستی بیانیے کا حصہ بن کر سرکاری مراعات کے ساتھ آزاد میڈیا کے مقابلے میں پی ٹی وی کا کردار ادا کرنے کی حامی بھر لی ۔ اس وقت بھی بہت سے چینل ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنے اور نیچا دکھانے کی غیر زمہ دارانہ کوششوں کا حصہ ہیں اس کے لیئے ہر چینل عوامی ترجمانی کے بجائے حکومت اور ریاستی اداروں کا سہارا لے کر اپنی آزادی گروی رکھنے پر آمادہ ہے۔

دوسری طرف خود ریاست اور اس کے ادارے بھی آزاد صحافت کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والے چینل اور اخبارات کے خلاف کمر بستہ ہیں ۔ ایسے چینل اور اخبارات جوعوامی ترجمانی کی کوشش میں براہ راست ریاستی بیانیے کا حصہ بننے سے انکاری ہوتے ہیں ان کے گرد گھیرا تنگ اور ان سے وابستہ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں وقتا فوقتا ہوتی رہی ہیں۔ اسلام آباد جیسے شہر میں سلیم شہزاد کا قتل یا معروف صحافی حامد میر پرکراچی میں قاتلانہ حملہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ میڈیا پابندی کا شکار ہے۔

پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان بالخصوص میڈیا سے وابستہ کارکنوں کے لیئے ایک ریڈ زون بن گیا ہے. آئے روز میڈیا کی آزادی دبانے کی سازشیں کی جارہی ہیں. یہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں یکساں پابندی کا شکار ہیں. ان سے وابستہ صحافی اپنی طرف سے کوئی تحقیقی خبر یا رپورٹ شائع اور نشر نہیں کرسکتے. تمام تر انحصار سرکاری اور غیر سرکاری یا سیاسی و مذہبی جماعتو ں کی پریس ریلیزپر رہ گیا ہے. حتی کہ اس سال 24 اکتوبر سے بلوچستان کے مختلف اضلاع میں اخبارات کی ترسیل معطل کردی گئی ہے. جس کا سبب بلوچستان کی علیحیدگی پسند جماعتوں کی جانب سے دی گئی احتجاجی کال ہے ۔ان جماعتوں کا موقف ہے کہ سرکاری دباؤ کی وجہ سے بلوچستان میں میڈیا انسانی حقوق کی صحیع صورتحال اور حالات و واقعات کی صحیع عکاسی نہیں کررہی. جب تک ایک آزاد اور غیر جانبدار میڈیا ظہور پزیر نہیں ہوگا اور بلوچستان کی حقیقی صورتحال پیش نہیں کرے گا. تب تک پابندی کا اطلاق بزور طاقت جاری رہے گا۔ ان تنظیموں نے اپنے کال کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر حب میں ایک پریس کلب اور تربت میں اخبارات فروخت کرنے والے دکان کو بم سے نشانہ بنایا۔ان تنظیموں کی جانب سے مسلسل دہمکی آمیز بیانات بھی آرہے ہیں. جن میں صحافیوں کو رپورٹنگ سے منع کرنے اور صحافتی سرگرمیوں سے ان کے اگلے فیصلے تک دور رہنے کی ہدایات ہوتی ہیں۔

اگر میڈیا پہ الزام لگ گئی پابندی اور اس جواز کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ میڈیا اگرچہ پابندی اور بندش کے باعث بلوچستان میں آزادی سے کام نہیں کررہی. مگر خود میڈیا ہاؤسز کا رویہ بلوچستان اور اس کے معاملات میں ہمیشہ معاندانہ اور جانبدارانہ بھی رہا ہے ۔بلوچ انسرجنسی کے علاوہ عام معاملات میں بھی بلوچستان کا بلیک آؤٹ صاف دکھائی دیتا رہا ہے جس کا کوئی صحافتی جواز بھی نہیں بنتا۔ میڈیا ہاؤسز اور بااثر شخصیات کی جانبدرانہ رویے کا ایک مظاہر یہ ہے کہ 24کتوبر سے جاری اس نئی رد عمل کا ابھی تک حکومت اور نا ہی ملک کے بڑے صحافتی اداروں نے نوٹس لیا. حتٰی کہ میڈیا نے بلوچستان کے صحافیوں کو درپیش اس تازہ صورتحال کو کور نہیں کیا جس سے یہ تاثر تقویت پاتی ہے کہ بلوچستان میں صحافت کو درپیش مشکلات پر خود میڈیا ہاؤسز، حکومت یا دیگر تمام ادارے سنجیدہ نہیں ہیں اور نا ہی میڈیا ئی آزادی کے قائل ہیں ۔

عالمی اداروں کی رپورٹ کہتی ہے. پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت گزشتہ چند سالوں میں سب سے زیادہ صحافی بلوچستان میں قتل ہوئے ہیں۔ تربت اور خضدار کے علاوہ کوئٹہ شہر کے حساس علاقے میں ارشادمستوئی کو تین ساتھیوں کے ساتھ ان کے دفتر میں قتل کردیاگیا. لیکن اب تک ایک بھی صحافی کے قاتل کا سراغ نہیں لگایا جاسکا ۔ یہاں ورکنگ جرنلسٹ کو ہر وقت کہیں نہ کہیں سے خطرے اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی یہ کہتی ہیں کہ پاکستان صحافت کے لیے خطرناک ملکوں میں شامل ہے جب کہ بلوچستان ملک کے سب سے خطرناک تریں علاقوں میں سے ایک ہے یہا ں حکومت ، حکومتی اداروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں، مسلح تنظیموں سمیت قبائلی شخصیات کی جانب سے صحافت شدید سے شدید تریں خطرات کا شکار ہے۔