بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مراد بلوچ نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ اتوار کے روز کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اخبار میں بلوچوں کی نسل کشی کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئے پہلے سے جاری نسل کشی کا اعتراف کر لیا ہے، اب عالمی اداروں کو چاہئے کہ وہ ان جرائم کے خلاف ریاست پاکستان اور اس کے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
سرفرازبگٹی کی جانب سے بلوچ آزادی پسندوں کو دہشت گرد قرار دیکر ان کی نسل کشی کا اعلان بلوچ قوم سے نفرت کا اظہار ہے، وہ خود نام کے بلوچ ہوسکتے ہیں مگر بلوچی روایات کے مطابق اس میں بلوچ ہونے کی کوئی خاصیت موجود نہیں رہا۔ پاکستانی مظالم سے نجات حاصل کرنے کیلئے آج ہر بلوچ آزادی کا طلب گار ہے اور قابض ریاست کی فرمان کے مطابق ان سب کا قتل برحق ہے۔اس طرح یہ بلوچ نسل کشی کا پہلی دفعہ کھلے عام اعلان اور اعتراف ہے۔
ڈاکٹر مراد بلوچ نے کہا کہ سرفراز بگٹی نے پہلے بھی اعتراف کیا تھا کہ ان کی حکومت نے دوسالوں میں تیرہ ہزار بلوچوں کو گرفتار کی ہے۔ اس کے بعد سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت دیگر نو ہزار بلوچوں کی گرفتاری کااعتراف کیا مگر ان میں سے کسی کو بھی کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور یہ تمام ابھی تک لاپتہ ہیں، یہ نسل کشی بلوچستان پر قبضہ کے بعد 69 سالوں سے جاری ہے۔
بی این ایم کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ پاکستان تمام بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ آئے دن نہتے شہریوں پر بمباری، خواتین، بچوں اور طلبا کا اغواروز کا معمول بن چکا ہے۔
اٹھائیس اکتوبر کو کراچی سے آٹھ سالہ آفتاب یونس، بارہ سالہ الفت الطاف، پندرہ نومبر کو بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ و ساتھیوں کا پاکستانی فورسز کے ہاتھوں اغواپر میڈیا اور انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشی سے یہی نظرہوتا ہے کہ میڈیا اور انسانی حقوق کے مقامی ادارے پاکستان کے بلوچ نسل کشی کے اعلان کو جائز سمجھتے ہیں۔
ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ پاکستانی وزیر کی نسل کشی کی دھمکی کو سنجیدہ لیکر کرہ ارض پر بلوچ قوم کی تحفظ میں اپنا کردار ادا کریں۔