گِرین بُک (آخری حصہ) ترجمہ: نودبندگ بلوچ

809

 گِرین بُک

چوتھا اور آخری حصہ

ترجمہ: نودبندگ بلوچ

 

ردِ تفتیش:۔

تفتیش کا مقابلہ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ آپ پہلے تفتیش کے محرکات کو سمجھیں اور یہ سمجھیں کے کن طریقہ کاروں کا استعمال کن مقاصد کیلئے ہوتا ہے۔ کسی بھی تفتیش کا مقصد معلومات حاصل کرنا اور اعتراف کروانا ہے۔ اگر تفتیش کاروں کو یہ پتہ ہوتا کہ وہ آپ میں کیا تلاش کررہے ہیں، تو پھر انہیں تفتیش کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی، اسی لیئے تفتیش تب ہی ہوتی ہے جب تفتیش کار کو کچھ معلوم نہیں ہوتا ، اور بعد میں اسے جو بھی معلوم پڑجاتا ہے وہ آپ کے ذریعے سے ہی پڑتا ہے، اس لیئے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، وہ آپ کے سزا پر منتج ہوتیں ہیں۔ اسی لیئے تفتیش کا بہترین توڑ ایک ہی ہے کہ ” آپ کچھ بھی نا بولیں“۔

تمام تفتیش کار کسی کہانی، کسی سراغ یا کسی مشتبہ بات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اس لیئے جب ایک کارکن گرفتار ہوتا ہے تو تفتیش کار اسی سراغ، شک یا کہانی کو مکمل کرکے، حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صرف تب ہی ممکن ہے جب انہیں گرفتار کارکن سے کوئی معلومات حاصل ہو۔ عمومی طور پر وہ تفتیش کا آغاز مختلف سوالات سے کرتے ہیں اور ہر جواب کو لکھتے جاتے ہیں، اسکے بعد تفتیش کار ان حاصل معلومات کا تقابل پہلے سے موجودمعلومات کے ساتھ کرتے ہیں، پھر وہ ان دونوں حاصل معلومات کے بیچ تضاد کو پرکھتے ہیں، اسکے بعد وہ دوبارہ قیدی کے پاس جاکر ان تضادات کی نشاندہی کرتے ہیں اور مزید و درست معلومات کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ سلسلہ تب تک چلتا رہتا ہے، جب تک کہ گرفتار کارکن درست معلومات مہیا نہیں کردیتا ہے، بعد میں یہی مکمل اقبالی بیان اسکے سزا کی وجہ بنتی ہے۔ اسی لیئے سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ آپ کچھ نا بولو۔

مکالمہ :۔

کبھی بھی فوجیوں یا تفتیش کاروں سے مکالمہ شروع نا کریں، جب قیدی کو کوٹھڑی میں بند کیا جاتا ہے، تو سب اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، اسے مارا جاتا ہے، اسکی بے عزتی کی جاتی ہے اور غلیظ گالیاں بکی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ شروع سے ہی قیدی کو ڈرایا جائے اور اسے نفسیاتی خوف میں مبتلا کیا جائے۔ جب کسی انسان کو نفسیاتی خوف میں مبتلا کردیا جائے تو پھر انسان کا فطری دفاعی نظام کمزور پڑجاتا ہے۔ جب ایسا ہوجائے تو پھر قیدی عدم معقولیت کا شکار ہوجاتا ہے اور تفتیش کے سامنے کمزور پڑجاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں بیان کریں تو ایک پریشان و خوفزدہ انسان سے تفتیش کرنا، کسی پرسکون انسان سے تفتیش کرنے کے مقابلے میں بہت زیادہ آسان ہے۔

اس لیئے، جب کبھی کوئی کارکن گرفتار ہوجائے اور وہ ان اشتعال انگیز تشدد و گالیوں کا سامنا کررہا ہو، تو وہ حد درجہ کوشش کرے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو، بد تمیزیوں کو، اشتعال انگیزیوں کو نظر انداز کرے اور اپنی توجہ اپنی گرفتاری کے اسباب پر لگادے۔ بہت سے کارکن خوف کی وجہ سے بولنا شروع کردیتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ جب وہ سب بول دیں گے تو پھر وہ تشدد سے بچ جائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ تفتیش کا ایک بنیادی مسلمہ اصول ہے کہ جب قیدی کچھ نہیں بتارہا، تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ بے گناہ ہو اور اسے سچ میں کچھ نہیں پتااور اسکے ساتھ مزید لگے رہنا اور تفتیش کرنا محض وقت کا زیاں ہے، لیکن اگر قیدی تھوڑا سا بھی معلومات مہیا کردیتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ا سکے پاس ضرور مزید معلومات ہونگے، اس لیئے تفتیش کو جاری رہنا چاہیئے اور تشدد کو بڑھاتے رہنا چاہیئے۔ لہٰذا کوئی کارکن جب تشدد سے بچنے کیلئے تھوڑا بھی بولتا ہے تو یہ اسے تشدد سے بچاتی نہیں بلکہ مزید تشدد کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ چاہے سچ میں قیدی کے پاس وہی تھوڑی سی ہی معلومات ہو، لیکن تفتیش کار ہمیشہ یہی اندازے لگاتے ہیں کہ قیدی کے پاس بولنے کیلئے اور بھی بہت کچھ ہے۔ اسی لیئے اپنا بہترین دفاع یہ ہے کہ آپ پرسکون رہیں اور کچھ بھی نا کہیں۔

جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ کیسے تفتیش کاروں کا پہلا گروہ کوٹھڑی میں آکر عمومی طور پر قیدی پر چیختے چلاتے، گالیاں دیتے ہیں۔ گرفتار کارکن کو پتہ ہونا چاہیئے کہ تفتیش کاروں کے اس پہلے گروہ کا مقصد ذاتی تفصیلات جمع کرنا، ہاتھوں کے نشان لینا ، نام پتہ وغیرہ پوچھنا ہوتا ہے۔ اس وقت تک قیدی کے بارے میں انکے پاس معلومات نہیں ہوتے، اور ابتدائی تفتیش کاروں کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ یہ پہچان کریں کے گرفتار کارکن کون ہے۔ ایک بار پھر گرفتار کارکن کو پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ جو کچھ بھی بولے گا اسے ریکارڈ کیا جائے گا اور ان معلومات کا تقابل پہلے سے موجود معلومات سے کیا جائے گا۔ شروع کا یہ جارحانہ رویہ جس میں غالباً ایک یا دو تفتیش کار کچھ زیادہ ہی جارحانہ رویہ دِکھاتے ہیں، ” توڑنے کا دورانیہ “ کہلاتا ہے۔ اس تشدد آمیز تفتیش کے طریقہ کار کا استعمال اس لیئے کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں آنے والے تفتیش کاروں کیلئے ماحول تیار کیا جائے، جو زیادہ تر نرم مزاج اور ہمدردی جتانے والے تفتیش کار ہوتے ہیں۔

تفتیش کاروں کی وہ ٹیم جو گرفتار کارکن سے ہمدردانہ اور دوستانہ طریقے سے ملتے ہیں، سگریٹ، چائے اور دوستی کی پیشکش کرتے ہیں ، انکے بارے میں کارکن کو اچھے طریقے سے سمجھنا چاہیئے کہ وہ آپ کے ہر گز خیر خواہ نہیں، انکی دوستی سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ یہ تفتیش کارحتیٰ کہ خود کو آپ کے مقصد کا بھی خیر خواہ ظاھر کرتے ہیں، وہ گرفتار کارکن کو متاثر کرنے کیلئے ظاھر کرتے ہیں کہ وہ آپکے مقصد سے مکمل ہم آہنگی رکھتا ہے، اسکا باپ دادا یا جاننے والے بھی آپ کے پارٹی میں رہ چکے ہیں، وہ تو بس معاشی مجبوریوں کی وجہ سے یہ نوکری کررہا ہے، اب وہ محض وقت گذاری کرکے اپنے ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہا ہے وغیرہ۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ انہیں اصل میں آپکے اعتراف نامے سے کوئی بھی دلچسپی نہیں ہے، وہ اعتراف کرنے کا آپ کو اسلیئے کہہ رہے ہیں تاکہ آپکی مدد ہوسکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ آپ کو سخت گیر تفتیش کاروں سے بچاتے ہیں، کیونکہ ان تفتیش کاروں کو آپ کے اعتراف کرنے سے کوئی غرض نہیں، وہ آپکے پارٹی کے دشمن ہیں وہ تو بس آپ کو مارنے اور پِیٹنے کا بہانہ ڈھونڈ رہے ہیں، اور وہ گرفتار کارکن کو ان سے بچا سکتے ہیں۔

تفتیش کا یہ طریقہ کار پولیس و فوج کا ایک پرانا اور آزمودہ طریقہ کار ہے، وہ قیدی کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرکے امید کرتے ہیں کہ قیدی انکے جال میں پھنس جائے اور گومگو کا شکار ہوجائے۔ یہ طریقہ کار زیادہ تر مارنے پِیٹنے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے، یہ شاید تفتیش کا سب سے خطرناک قسم ہے، کیونکہ اس طرح قیدی کو نفسیاتی طور پر کمزور کردیا جاتا ہے، امید کی وجہ سے قیدی سمجھوتے اور جان بچانے کے بارے میں سوچتا ہے اور یوں وہ جال میں پھنس جاتا ہے۔

تفتیش کا ایک اور طریقہ Top Secret File Technique ہے، اس طریقہ کار کے تحت تفتیش کار کمرہ تفتیش میں داخل ہوتے ہوئے، اپنے ہاتھ میں ایک فائل لاتے ہیں، جس پر قیدی کا نام بڑے حرف میں لکھا ہوتا ہے۔ اس کے اندر قیدی کے بارے میں باریک اور ذاتی قسم کے معلومات ہوتے ہیں، جنہیں وہ مختلف ذرائع سے حاصل کرتے ہیں، اس میں کچھ معلومات وہ ہوتے ہیں جو پہلے سے گرفتار کارکنوں سے اسکے بارے میں حاصل ہوئی ہو۔ خاص طور پر پہلے سے گرفتار کارکنوں سے حاصل معلومات خطرناک ہوتی ہیں۔ زیادہ تر وہ اعتراف نامے کی صورت میں ہوتے ہیں، جس پر کسی گرفتار قیدی کا نام اور دستخط ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے گرفتار کارکن کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ زیادہ تر جعلی اعتراف نامے ہوتے ہیں، اگر وہ اعتراف نامہ حقیقت بھی ہو تو پھر بھی دنیا کے کسی بھی عدالت میں تشدد سے حاصل کی گئی اعتراف نامے کی کوئی وقعت نہیں، یہ طریقہ قیدی کو کمزور کرنے اور توڑنے کا ایک حربہ ہے۔ اسکا ہر گز شکار نا بنیں اور اپنے موقف پر ڈٹے رہیں، خاص طور پر کسی اعتراف نامے پر دستخط نا کریں۔

ایک اور خطرناک طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے اعتراف کرچکے کسی کارکن کو آپکے سامنے ایک کمرے میں بٹھادیا جاتا ہے، پھر تفتیش کار چلے جاتے ہیں، یوں آپکا اپنا کامریڈ ہی کوشش کرتا ہے کہ آپ کو منوائے کہ آپ تسلیم کرلو اور سب کچھ بتادو۔ اس صورت میں آپ اپنے ذہن میں رکھ لیں کہ یہ ظاھر کیا جارہا ہے کہ آپ اکیلے ہو، آپ ہر گز اکیلے نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں چھپے کیمرے یاوائس ریکارڈر لگے ہوتے ہیں تاکہ اگر آپ اپنے کامریڈ کے سامنے کمزور پڑ کر کوئی بات کرلو تو وہ اسے آپکے خلاف استعمال کریں۔ ایک اور بات بھی آپ کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اس صورت حال میں آپ کبھی بھی اعتراف کرنے والے کارکن کے ساتھ جھگڑا، گالی گلوچ یا گرما گرمی سے کام نہیں لیں اور نا ہی اسے طعنے مارو، کیونکہ اس سے یہ ثابت ہوجاتی ہے کہ آپ کا اس سے تعلق ہے، آپ اس سے بہت دوستانہ طریقے سے بات کریں اور اسے کہیں کہ آپ سے پہچاننے میں شاید غلطی ہوئی ہے۔ ایک اور بات بھی ذہن نشین کرلیں کے اسکے ساتھ بالکل بھی سیاسی بحث یا سیاسی مکالمہ شروع نا کریں۔

سیاسی مکالمہ بازی، تفتیش کا ایک بہت آزمودہ طریقہ ہے۔ جب تفتیش کے تمام طریقہ کاروں کے استعمال کے باوجود بھی وہ گرفتار کارکن سے کچھ بھی نہیں اگلوا سکیں، تو پھر تفتیش کار کسی نا کسی طرح سے سیاسی موضوع کو بحث کیلئے چھیڑ دیتے ہیں، اور آپ کو موقع دیتے ہیں کہ سیاست پر بات کریں۔ بہت سے گرفتار کارکنان جو مضبوطی کے ساتھ باقی تفتیش کا مقابلہ کرلیتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اس طریقہ کار کا شکار ہوجاتے ہیں اور انکے چال کو پہچان نہیں پاتے۔ اس طریقہ کار کا مقصد یہ ہے کہ آپ کا توازن بگاڑ دیا جائے، اس طرح وہ آپ کیلئے آسان بنادیتے ہیں کہ آپ بات کریں ، قیدی پہلی بار بات کرنے میں آزادی محسوس کرتا ہے اور آزادانہ بولنا شروع کردیتا ہے۔ اس طریقہ کار کا نفسیاتی طور پر بڑا اثر پڑتا ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں کہ تفتیش کاروں کا ایک گروپ، بہت دوستانہ ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو آپ کا ہمدرد ظاھر کرتے ہیں اور باقیوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اصل میں یہ سب ایک ڈرامے کا کردار ہوتے ہیں اور ہر کوئی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ انہیں یہ کردار پہلے سے ہی بہت اچھے طریقے سے سمجھایا جاتا ہے۔  یہ سب نفسیاتی وار ہوتے ہیں اور وہ یہ نفسیاتی حربے استعمال کرکے گرفتار کارکن کو کمزور کردینا چاہتے ہیں۔ ہم سب جسمانی تشدد کے بارے میں جانتے ہیں کہ وہ کیا ہوتا ہے، جس کے لیئے ہر کارکن تیار بھی رہتا ہے لیکن یہ نفسیاتی تشدد ہوتی ہے، جس کیلئے پہلے سے تیار نہیں ہوتے۔ اس لیئے یہ طریقہ کار زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

جیسا کہ جارح مزاج تفتیش کاروں کے بارے میں ہم بتاچکے ہیں کہ کیسے وہ اچانک کمرے میں آکر مارنا، پیٹنا، گالیاں دینا اور چیخنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ بار بار باتیں کریں گے چیخیں گے، آپ کو بتائیں گے کو وہ آج تک کسی کو اگلوانے میں ناکام نہیں ہوئے اور آپ انہیں بیوقوف نہیں بناسکتے وغیرہ۔ اب ہمیں سمجھنا ہوگا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ سب سے زیادہ قابلِ غور نقطہ یہ ہے کہ وہ کیوں تشدد کے دوران چیخنے، چلانے اور گالیوں کا استعمال کرتے ہیں؟ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں جسمانی تشدد سے زیادہ چیخنا زیادہ اہم تفتیشی ہتھکنڈہ لگتا ہے۔ آخر چیخیں چلائیں کیوں؟ وہ کیوں قیدی کو باور کرانے کی کوشش کریں کے وہ سچ اگلوانے میں ماہر ہیں؟ یہ چیخنا اور شیخی بگھارنا اصل میں باقی اہلکاروں کو بھی دِکھانا ہوتا ہے کہ وہ کتنے قابل ہیں اور وہ کس پھرتی سے اعتراف کرواسکتے ہیں۔ یہ از خود انکے اپنے کمزوری کا عکاس ہے۔ یہ سب بالکل اسی طرح ہے، جس طرح پرانے زمانے میں جنگلی لوگ ، جانوروں کا سَر پہن کر چیختے اور “ جنگی ناچ “ ناچتے تھے۔ انہیں ایسا لگتا تھا کہ ایسا کرنے سے ان میں بھی اس جنگلی جانور کی طاقت آجائیگی۔ ان جنگلی لوگوں اور ان تفتیش کاروں میں کوئی فرق نہیں دونوں خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک کارکن بھی انکے چیخنے چلانے کو اسی زاویے سے ہی دیکھے۔

نفسیاتی تشدد:۔

ہم نے دیکھا ہے کہ تشدد کا یہ طریقہ کار بہت زیادہ استعمال کیا جارہا ہے، زیادہ تر اسکا استعمال گرفتار کارکن، اسکے خاندان اور عزیز و اقارب کو دھمکیوں، قتل کرنے کی دھمکیوں ، بدنامی ، خصی کرنے کی دھمکی، نیند سے محروم رکھنے، مسلسل شور اور کھانے سے محرومی کی صورت میں ہوتا ہے۔ نفسیاتی تشدد کا استعمال جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ہی ہوتا ہے اور سب سے بڑا نفسیاتی تشدد یہ ہوتا ہے کہ ایک بار تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد دوبارہ تشدد شروع کرنے کا خوف، یہ قیدی میں نفسیاتی مسائل پیدا کردیتا ہے۔ یہ تمام حربے گرفتار کارکن کے قدرتی قوتِ مدافعت کو توڑنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔

تذلیل :۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ تفتیش کا یہ طریقہ زیادہ تر قیدی کو ننگا کرنا ہوتا ہے۔ کپڑے کسی فرد کے کردار کا ایک اہم حصہ ہوتے ہیں، کپڑے اتار کر تفتیش کار نا صرف کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ قیدی کا کردار بھی اتارنے کی یہ ایک کوشش ہوتی ہے۔ یہ ایک نفسیاتی علامتی عمل ہے۔

تذلیل کا دوسرا حصہ قیدی کے عضوِ تناسل کے بابت غلیظانہ زبان استعمال کرنا ہوتا ہے۔ایک کارکن کو اس عمل کے محرکات کو سمجھنا چاہیئے اور اس کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔ جیسے قیدی کو بے لباس کرکے وہ کپڑوں کے ساتھ علامتی طور پر ایک انسان کے مزاحمت اور فطری قوتِ مدافعت کو اتارنا چاہتے ہیں اسی طرح، قیدی کے اعضائے تناسل کا مزاق اڑانا اس کارکن کی تذلیل کی ایک کوشش ہوتی ہے، ایسا کرکے وہ گرفتار کارکن کے مزاحمت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ جتنا ہم سمجھتے ہیں، اس عمل کے اثرات اس سے کئی گنا زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔

پولیس اکثر آخری چارے کے طور پر بلیک میلنگ اور رشوت کا استعمال کرتا ہے تاکہ قیدی کو اعتراف کروایا جائے۔ تمام کارکنوں کو دِکھائے گئے ایسے گاجروں کو نظر انداز کرنا چاہیئے۔ رشوت کا کبھی بھی فائدہ نہیں ہوتا ہے، بھلے عارضی طور پر کسی کو پیسے اور حفاظت کی پیشکش ہو اور اسے مہیا بھی کی جائے لیکن یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھیں کہ کچھ وقت بعد جب ایسا شخص انکے کسی فائدہ کا نہیں ہوتا تو اسے بے یارومددگار پھینک دیا جاتا ہے۔” کینیتھ لینن“ اس کی ایک مثال ہے۔

ہم قدیم تاریخی شواہد سے دیکھتے ہیں کہ بابلی سلطت سے لیکر رومن سلطنت تک، ہسپانوی تحقیقاتوں سے لیکر نازی کیمپوں تک اور آج کے مہذب دور کے برطانوی راج تک، تشدد کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور ایسے ہزاروں قصے ہیں کہ کس طرح لوگ اس تشدد کا مقابلہ جوانمردی سے کرکے ٹوٹے بغیر اذیت گاہوں سے نکلے۔ تشدد بالکل غیر معمولی نہیں ہے، خاص طور پر جس پر کیا جارہا ہولیکن اسکا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

تشدد کا مقابلہ کرنے کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ قیدی خود میں یہ صلاحیت پیدا کرے کہ تشدد کے دوران وہ اپنے ذہن میں یا سامنے دیواروں پر خاکے بنائے۔ اس طرح آپ اپنا دیہان تشدد کے بجائے کسی اور طرف موڑ دیتے ہو،جس کی وجہ سے درد کا احساس کم ہوجاتا ہے۔

ختم شد