اڑتالیس گھنٹوں بعد بھی کراچی سے چار لاپتہ بلوچ طلباء کا پتہ لگانے میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں نے بھی اس معاملے پر ‘مجرمانہ’ خاموشی جاری رکھی ہے۔
15نومبر 2017 کو کراچی میں پٹیل پاڑہ سے چار بلوچ طالب علموں کو پاکستانی فورسز کی طرف سے گرفتار کیا گیا تھا جن کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
لاپتہ افراد میں سے تین کا تعلق بی ایس او آزاد نامی طلبہ تنظیم سے ہے جن میں مرکزی سیکریٹری جنرل، ثناء اللہ بلوچ عرف عزت بلوچ اور دو مرکزی کمیٹی کے ارکان، حسام بلوچ عرف نودان بلوچ اور نصیر احمد عرف چراغ بلوچ شامل ہیں. جبکہ، رفیق بلوچ عرف قمبربلوچ، بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے رکن ہیں۔
بلوچستان کی آزادی کی زبردست حمایت کی وجہ سے بی ایس او آزاد کو پاکستانی فورسز کی جانب سے ظالمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے. تنظیم کےاعلیٰ قیادت کی اکثریت یا تو مارے گئے ہیں یا سالوں سے غائب ہیں اس وجہ سے تنظیم نے حفاظتی تحفظ کے لئے اصل ناموں کی جگہ کوڈ نام استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تینوں لاپتہ کارکن کراچی یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں . ان کے یونیورسٹی کے ساتھیوں نے دی بلوچستان پوسٹ (ٹی بی پی) کو بتایا کہ لاپتہ کارکن بہت باصلاحیت تھے اور پڑھائی میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
جب کہ پاکستانی ریاستی فورسز نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پٹیل پاڑا سے چار لوگوں کو اٹھا لیا ہے،بقول ان کے کہ یہ معمول کی گھر گھر تلاشی تھی جس کے دوران ان چار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے. انہوں نے یہ بھی تصدیق کی ہے کہ اس سرچ آپریشن کے دوران کوئی غیر قانونی مواد برآمد نہیں ہوا ہے تاہم ان افراد کو شک کی بناہ پر گرفتار کیا گیا ہے۔
دوسری جانب بی ایس او آزاد نے ان دعوؤں کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ طالب علموں کو خاص طور پر تنظیم کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر اغوا کیا گیا ہے۔ تنظیم نے ایک پریس بیان میں کہا کہ یہ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں زاہد کرد، شبیر بلوچ اور ذاکر مجید جیسے اغواوں کا تسلسل ہے۔
ان اغواؤں کی بلوچستان اور دوسرے ممالک میں بلوچ سیاسی حلقوں نے وسیع پیمانے پر مذمت کی۔
کینیڈا میں مقیم بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن کریمہ بلوچ، جوبی بی سی کی 2016 کی با اثر خواتین کی فہرست میں شامل تھی، انہوں نے ٹی بی پی کو بتایا کہ بی ایس او آزاد نے کئی سالوں سے پاکستانی ریاستی افواج کے قہر کو جھیلا ہے۔
کریمہ بلوچ نے کہا کہ ہم ایک پرامن سیاسی تنظیم ہیں جو طالب علموں کے ساتھ ساتھ بلوچ حقوق کے لئے مہم چلاتے ہیں. تاہم بی ایس او آزاد پاکستانی ریاست اور ریاستی افواج کے ہاتھوں اس طرح کے منفی اور غیر انسانی رویے کا شکار ہے۔
کریمہ بلوچ نے مزید کہا کہ ہم بلوچستان میں سماج کا کریم کھو چکے ہیں. بی ایس او آزاد کے ایک سو سے زائد سرگرم کارکن اور رہنماؤں کو ہلاک کر دیا گیا ہے یا وہ کئی سالوں سے غائب ہیں جن میں تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد کرد، سابق سینئر نائب چیئرمین ذاکر مجید، انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ اور بہت سے دیگر افراد کے اغوا شامل ہیں. جبکہ رضا جہانگیر جو اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل تھےان کو پاکستانی فورسز نے ہلاک کر دیا۔
آئرلینڈ میں مقیم ایک فعال سماجی میڈیا کارکن فیض بلوچ نے ٹی بی پی کو بتایا کہ صرف تین ہفتوں کے مختصر وقت میں، 13 بلوچ طالب علموں کو کراچی سے سیکورٹی فورسز نے اغوا کر لیا ہے. کراچی ایک میٹروپولیٹن شہر ہے جہاں مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی بڑی موجودگی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا پاکستانی فورسزکی جانب سے بنا کسی خوف کے بلوچ طالب علموں کو اٹھایا جا رہا ہے اور یہ کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک غیر نظرانداز ہونے والا عمل ہے، تو کوئی تصور کر سکتا ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ظلم و جبر کی کیا نوعیئت ہوگی جہاں ذرائع ابلاغ کو سیکیورٹی فورسز کی طرف سے روک دیا گیا ہے۔.
فیض بلوچ نے مزید کہا کہ کراچی میں بی ایس او آزاد کے رہنماؤں اور طالب علموں کی حالیہ گرفتاری پاکستان کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے جس کے تحت بلوچ نوجوانوں کے لئے پرامن سرگرمی اور تعلیم کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔
ٹی بی پی نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے لندن میں مقیم بین الاقوامی نمائندے حمل حیدر بلوچ سے بھی بات کی، انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں پرامن بلوچ طلبہ کے اغوا ہونے کے واقعات میں شدت سے اضافہ ہوا ہے۔ یہ طلباء کراچی اپنی تعلیم کے لئے گئے تھے لیکن پاکستانی فورسز بلوچ طلبہ کے تعلیم حاصل کرنے کے حق کو غیر آئینی طور پر دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج نے خواتین، بچوں اور نوجوان طلباء کو نشانہ بنانے کے لئے ایک نئی پالیسی شروع کی ہے اور صرف لوگوں کو اس بنیاد پر اغوا کیا جاتا ہے کہ وہ بلوچ ہیں تاکہ اس طرح سے وہ آزادی کی تحریک کو کچل سکے۔
حمل حیدر نے مزید کہا کہ “اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی اس سلسلے میں خاموشی ایک مجرمانہ اور افسوس ناک عمل ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے بھی بلوچ طلبہ کے اغوا کی مذمت کی اور ٹویٹر پر پیغام جاری کیا۔
I condemn the abduction of BSO Secretary General Sana Ullah Baloch, Central Committee members Naseer Ahmed and Hassam Baloch, and that of Mohammed Rafiq from Karachi last night.
— KHALIL BALOCH (@ChairmanKhalil) November 16, 2017
مشہور بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ نے اقوام متحدہ، امریکہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ بلوچ نوجوانوں کی زندگی بچانے کے لئے فوری طور پر اقدام اٹھائیں۔
The four Baloch, including BSO Secretary General Sana Baloch, have been abducted by law enforcement agencies from Karachi. We appeal the @UN, the US, @amnesty and other human rights organizations to save the lives of Baloch youth.
— Allah Nazar Baloch (@DrAllahNizar) November 17, 2017
بی ایس او آزاد کے سابقہ لیڈر لطیف جوہر، جو 2014 میں زاہد کرد کے بازیابی کیلئے 46 دن تک بھوک ہڑتال میں بیٹھے تھے، نے ایک ٹیوئٹ میں کہا کہ ثنااللہ بلوچ انکے رفیق تھے اور کئی دوسروں کی طرح نامعلوم رہنے پر مجبور تھے۔
Mr Sanaullah is my friend, he is a native of Mashkey, #Balochistan. Like 1000s of other Baloch activists he was also compelled to remain anonymous under the pseudonym @EzzatBaloch since d KILL & DUMP policy of Pakistan pic.twitter.com/lnjKGOukO1
— Lateef Johar Baloch (@LateefJohar) November 16, 2017
بی ایس او آزاد نے کہا ہیکہ لاپتہ طالبعلموں کے بازیابی کیلئے احتجاجی شیڈول جلد جاری کیا جائے گا۔