ژاں پال سارتر ؛ انقلابی ورثہ سلسلہ

1372

ژاں پال سارتر نے ساری زندگی اپنے لیے کوئی گھر بنایا نہ ہی شادی کی۔ ماں کی دوسری شادی نے اسے ساری عمر شادی سے متنفر کر دیا تھا اور وہ شادی کے نام سے دور بھاگتا رہا۔ سیمون ڈی بوار اس کی ہم خیال تھی۔ دونوں بغیر شادی کے ساتھ ساتھ رہے اور یہ ساتھ سارتر کی موت پر ٹوٹا… سارتر نے اپنی ساری کتابیں ہوٹل اور کیفے میں بیٹھ کر لکھیں… ہوٹل ’’فلور‘‘ اس کا پسندیدہ ہوٹل تھا۔ کچھ لوگ اس کے فلسفے ’’جدیدیت‘‘ کو ’’کافی ہائوس فلسفہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔

سارتر کے کیفے کے قیام پر کچھ لوگوں نے اعتراض اُٹھایا تو اس نے جواب دیا۔ ’’میں کیفے میں گھر سے زیادہ منہمک ہوتا ہوں‘‘ پوچھنے والوں نے پوچھا: ’’کیوں؟‘‘ سارتر کا جواب تھا:’’لوگ وہاں نہ میری پروا کرتے ہیں نہ مجھے لوگوں کی پروا ہوتی ہے۔ اس ماحول میں مجھے کام کرنے میں آسانی ہوتی ہے اور پھر گھر بار کا بوجھ میرے بس کی بات نہیں۔‘‘ سیمون ڈی بوار سے اس کی ملاقات بھی عجیب حالات میں ہوئی۔

سیمون ایک ذہین اور اپنے آپ پر نازاں لڑکی تھی۔ مردوں کو کمتر سمجھنا اور ان کا مذاق اُڑانا اس کی عادت بن گئی تھی۔ لیکن جب اس کی ملاقات سارتر سے ہوئی تو اسے اپنی یہ عادت ترک کرنا پڑی اور سارتر کی ذہانت کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ دوستوں نے جب اس سے پوچھا کہ تم سارتر سے متاثر ہو گئی ہو یا اس کے سامنے سرنگوں ہو گئی ہو؟ تو اس نے جواب دیا: ’’میں سارتر کی دوست ہ وں لیکن جب مجھے کوئی سارتر سے بہتر آدمی مل جائے گا تو میں اسے چھوڑ دونگی۔‘‘ مگر اسے سارتر سے بہتر آدمی نہ مل سکا اور یہ دوستی زندگی بھر رہی۔

سیمون ڈی بوار نے سارتر کے ساتھ ہوٹلوں میں وقت گزارا۔ اس کے ساتھ بہت سفر کیے۔ راتیں جاگ کر اور گھوم پھر کر گزاریں اور اس کے بارے میں بڑی عجیب باتیں لکھیں۔ وہ کہتی ہے سارتر بہت وہمی آدمی تھا۔ ایک باروینس کی گلیوں میں وہ ساری رات پھرتے رہے۔ صبح سارتر نے سیمون کو بتلایا کہ ایک جھینگا مچھلی ساری رات اس کا پیچھا کرتی رہی ہے۔ سیمون کے ساتھ وہ اپنے آپ کو بہت پر سکون محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ یہ وہم کی بیماری جاتی رہی۔ سارتر نے زندگی بھر لکھا اور بہت کچھ لکھا۔ لکھنے کا شوق اُسے بچپن ہی سے تھا۔ اس نے بچپن میں ایک کہانی لکھی اور پھر وہ ساری عمر لکھتا رہا۔ اس نے کئی بار اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میں لکھنے کے لیے پیدا ہوا ہوں اور لکھنے کی وجہ سے ہی میں زندہ ہوں۔

سارتر نے ڈرامے لکھے ، ناول لکھے، بائیو گرافی لکھی، فلسفے پر کتابیں لکھیں، لیکن اس کی یہ ساری تحریریں اس کے فلسفے کے گرد گھومتی ہیں جس کا وہ موجد یا بانی سمجھا جاتا ہے۔ جب بھی وجودیت کا لفظ سامنے آئے تو سارتر کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔ سارتر اور وجودیت اس عہد میں لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں۔ وجودیت پر لکھنے والوں کا خیال ہے کہ سارتر کے ہاں یہ اصطلاح یا فلسفہ ہیگل، ہیسرل اور ہائیڈیگر کے مطالعے سے آیا ہے۔ سارتر سے پہلے بھی یہ موجود تھا لیکن سارتر نے اسے باقاعدہ فلسفے کی شکل دی… سقراط سے پہلے تک اور سقراط کے بعد میں فلسفہ مخصوص لوگوں کی وراثت تھا۔ سقراط نے اسے بازاروں کا راستہ دکھایا لیکن فلسفہ رہا چند لوگوں کے پاس ہی۔ اسے عمومی درجہ نہ دیا گیا۔ وجودیت شاید فلسفے کی وہ پہلی اصطلاح ہے جسے گلی محلوں، ہوٹلوں اور ادب میں زیر بحث لایا گیا اور یہ سب کچھ سارتر کی بدولت ہوا۔

البرٹ کامیو سے سارتر کی دوستی تھی۔ سارتر نے 1938ء میں اپنا ناول’’متلی‘‘ لکھا اور پھر کامیو سے مل کر وجودیت کے فلسفے کو ادب میں شامل کر دیا۔ ساری دنیا کے ادیب اپنے اپنے شاہکاروں میں وجودیت کی بانسری بجانے لگے، کہ انسان اس دنیا میں بیگانگی کے ماحول میں زندہ ہے۔ وہ اکیلا ہے نہ اس کا کوئی خدا ہے۔ نہ زمین اس کی دوست ہے۔ اسے اس غلاظت میں مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے۔ دنیا سراسر لغو ہے۔ بے معنی ہے، لیکن اس کے باوجود انسان قطعی طور پر آزاد ہے۔ اس کا وجود اس کی ذات پر مقدم ہے۔ سارتر زندگی کو بے مقصد قرار دیتا ہے۔ اس کی نظر میں زندگی کے کوئی معنی نہیں۔ انسان اپنا خود خالق ہے اور اپنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کو اس کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے۔ انسان کو چا ہیے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔

ڈاکٹر سی۔ اے۔ قادر وجودیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ یہ یورپ میں عالمی جنگوں سے پیدا ہوا۔ انسان درندوںا ور وحشیوں کی طرح لڑا۔ ہر قدر کو ٹھکرا دیا۔ اخلاق کا پاس رہانہ مذہب کا۔ جنگوں نے اخلاق اور مذہب دونوں کو تباہ کر دیا۔ نوجوانوں نے محسوس کیا کہ ماضی کا اخلاق ان کے مسائل کا حل نہیں اور مذہب کی طفل تسلیاں ان کی بے چینی دور نہیں کر سکتیں۔ اگر پرانی اقدار ختم ہو چکی ہیں، فلسفہ دوراز قیاس باتوں کا مجموعہ بن گیا ہے تو انسانی دور کا مداوا کیا ہے؟ اس سوال کا جواب وجودیت نے دیاہے…؟‘‘ سارتر انسان کو پرانے رواجوں اور روایتوں کے بندھن سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ سارتر نے اپنے ناول ’’متلی‘‘ میں ہیرو کے کردار سے اس کی وضاحت کی کوشش کی ہے، ہیرو بے معنی اور لغویت میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس بات پر خوش ہے کہ اس نے یہ کام خود منتخب کیا ہے اور آزادانہ طور پر کیا ہے، اس پر یہ کام تھوپا نہیں گیا۔سارتر کے نزدیک انتخاب کرنا دراصل روایتی سوچ سے پیچھا چھڑانے کا مطلب ہے۔ سارتر اس کو کامل آزادی کا نام دیتا ہے۔

سارتر کہتا ہے:’’مجھے دوسری جنگ عظیم کی شکست کا تجربہ جون1940ء میں ہو گیا تھا۔ میں نے خود اس کا انتخاب کیا۔ میں یہ بات قبول کرتا ہوں کہ میں ہر بات پر عمل اورہرشے کا جو مجھ سے وابستہ ہے اس کا میں خود ذمہ دار ہوں…‘‘ سارتر کے نزدیک ہر آدمی اپنی زندگی میں ایک ایسا کردار ضرور ادا کرتا ہے جو اس کی حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا۔ مثلاً کوئی آدمی حقیقی زندگی میں باورچی نہیں ہوتا لیکن وہ باورچی ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ایسا کر کے اپنی مکمل آزادی کا اعلان کرتا ہے مثلاً سارتر کے ڈرامے (Intimacy) پر نظر ڈالیے۔ ایک عورت اپنے پاگل شوہر کے ساتھ ایک بلڈنگ میں رہتی ہے اسے اپنے شوہر سے بہت محبت ہے۔ وہ اس سے الگ نہیں رہ سکتی اور نہ ہی وہ ذہنی مریض ہے، لیکن وہ شوہر کے ساتھ ذہنی مرض میں شریک نہیں ہونا چاہتی اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ یہی وہ کردار ہے جو اس کی حقیقی زندگی سے تعلق نہیں رکھتا مگر وہ یہ کردار ادا کرنے کا خود انتخاب کرتی ہے۔ یہ اس نے مکمل اور کامل آزادی سے کیا جو اسے حاصل ہے۔ سارتر کا کہنا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کی اذیت سے جو لوگ چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آزادی کا انتخاب کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنے گرد مذہب، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے ہیولے بنا لیتے ہیں جس طرح ریشم کا کیڑا اپنے گرد ریشم کے تار بنتا رہتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنے ہی بنے ہوئے جال میں دم توڑ دیتا ہے۔ ان لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا ہے اور وہ بھی اخلاق، مذہب اور معاشرتی ہیولوں میں پھنس کر مر جاتے ہیں۔

احمد عقیل روبی کی کتاب  ’’علم و دانش کے معمار‘‘ سے اقتباس –