بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنما ڈاکٹر اللہ نظر کا حالیہ بیان جو سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر جاری کیا گیا اس میں پہلی بار واضح طور پر ڈاکٹر مالک اور حاصل خان بزنجو کو بلوچ قومی تحریک کا دشمن کہہ کر ان کے متعلق سرمچاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جہاں کہیں مل جائیں انہیں اسی طرح ٹارگٹ کرکے قتل کیا جائے جس طرح پاکستان کی قابض فوج نیشنل پارٹی کی قیادت بالخصوص ان دو لٹیروں کے ایماء اور تعاون پر بلوچ نسل کشی پر عمل پیرا ہے۔
ڈاکٹر مالک اور حاصل خان بزنجو کون ہیں ان سے بلا کون ہے جو نا واقف ہو۔ اس وقت ان دونوں کو بلوچستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سرتوڑ کوشش کے ساتھ اثر پذیر تریں سیاسی رہنما ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے بلکہ پارلیمانی سیاست کی حد تک فوجی اسٹیبلشمنٹ ایسا کر چکی ہے جس کی مثال محض 3000 ہزار جعلی ووٹوں کے ساتھ ڈاکٹر مالک کو وزارت اعلی عطا کرنا اور حاصل خان کو سینٹ سے اٹھا کر وفاقی وزارت کے منصب پہ فائز کرنا ہے۔
ایسا کرکے دراصل ایک طرف فوجی اسٹیبلشمنٹ بلوچ نسل کشی میں ان کے کارکردگی کو سراہ رہی ہے تو دوسری طرف اہم پوزیشن پہ لا کر ان کے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھا کر عوام کے اندر انہیں اہم اور موثر لیڈر بنانے کی راہ ہموار کرنے کی جتن کررہی ہے۔
ڈاکٹر مالک بی ایس او کے سیاسی کاروان کا ہمسفر رہ کر اس منصب پہ لائے گئے ہیں لیکن وہ کبھی بی ایس او میں قیادت یا مرکزی رہنما کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے بلکہ انہیں ہمشیہ ایک مفاد پرست اور موقع پرست سیاسی کارکن کی حیثیت حاصل رہی ہے جن پہ ان کے قریبی ساتھیوں کا کبھی اعتماد نہیں رہا۔ ان کی موقع پرستی اور ہمسفر ساتھیوں کو دھوکہ دینے کی یہ مشہور روایت آج بھی بطور مثال موجود ہے جب بی ایم ایس میں جس وقت وہ طالب علم تھے چھاپہ پڑا تو ڈاکٹر مالک نے چال چل کے اپنے بجائے عبدالمالک نامی ایک شخص کو گرفتار کرادیا جس کا تعلق ضلع پنجگور سے ہے وہ ڈاکٹر مالک کے نام پہ کئ مہینے جیل میں رہے مگر یہ خود ساختہ لیڈر ان کی حال پرسی تک بھی نہیں گئے بلکہ خوش رہے کہ وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔
ڈاکٹر مالک کا والد محترم رئیس عبدالسلام کا شمار سرکار کے انتہائی معتمد اور قریبی اشخاص میں رہا حتی کہ انہیں بغیر کسی سرکاری عہدہ لوگوں کو اپنے گھر میں جیل کرنے اور ان سے جرمانہ وصولی کا اختیار دیا گیا تھا اسی رئیس عبدالسلام کا بیٹا والد محترم کا فرمان بردار اولاد بن کر اسٹیبلشمنٹ کی وفاداری ما بھرم آج تک قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر مالک کو وزارات اعلی ایک سودا بازی کے تحت دیا گیا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے تمام اختیارات کے عوض برائے نام اس شرط پہ انہیں وزیر اعلی بنایاکہ وہ بلوچ نسل کشی اور قومی آذادی کی تحریک کے خلاف بلا چون و چرا ہر طرح کا تعاون کرینگے۔ اس نکتے پہ پاکستان کی فوج ،حاصل خان بزنجو اور ڈاکٹر مالک میں اتفاق پیدا ہوئی بعد میں بلوچستان میں تاریخی آپریشن شروع کرکے سینکڑوں گائوں ملیامیٹ ھزاروں افراد شھید اور اغواء کیئے گئے پاکستان کی فوج کو پورے بلوچستان پہ کنٍٹرول دیاگیا ہر دس قدم پہ چوکیاں اور ہر گائوں میں چیک پوسٹ قائم کرنے کے ساتھ ایف سی کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایف سی بلوچستان سائوتھ ریجن بنا کر تربت کو اس کا ہیڈ کوارٹر بنایا گیا جس کا مقصد براہ راست بلوچستان کو فوجی کنٹرول میں دینا اور آذادی پسند سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کآ قلع قمع کرنا تھا۔
ڈاکٹر مالک کے علاوہ حاصل خان بزنجو بھی ہمیشہ سے ایک مہرہ کے بطور استعال ہوتا رہاہے ان کے والد میر غوث بزنجو ابتدائی ایام جب بلوچستان ایک آذاد ریاست تھی پاکستان سے الحاق کے خلاف رہا مگر جبری قبضہ کے بعد وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا برتر وفادار رہا اور کسی موقع پر اپنے وفاداری سے پیچھے نہیں ہٹا۔ حاصل بزنجو کو سڑک سے اٹھا کر اسٹیبلشمنٹ نے یکایک ایک بڑا لیڈر بنادیا وہ بی این ڈی پی نامی غیر معروف پارٹی کے سربراہ تھے جن کا انضمام بی این ایم جو ڈاکٹر مالک کے زیر اثر تھی سے کرایا گیا یہیں سے حاصل خان بزنجو ٹاپ کلاس پارلیمانی لیڈر بن گئے۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ہر قدم پر بلوچستان میں کندھا دینے اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف مخبر بن کر سیاسی کارکنوں کے قتل و اغواء اور غیر پارلیمانی جماعتوں کے خلاف فوجی استبداد میں صف اول کا محرک رہے۔
گوکہ نیشنل پارٹی میں ایسے لوگ آج بھی ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کو ناپسند کرتے ہیں کافی تعداد میں قومی تحریک سے ہمدردی رکھنے والے اشخاص بھی نیشنل پارٹی میں موجود ہوسکتے ہیں لیکن پارٹی مرکزی قیادت بالخصوص ڈاکٹر مالک و حاصل خان بلوچ دشمنی میں بہت آگے جاچکے ہیں ان کے خلاف بی ایل ایف کی نئی پالیسیاں ان کے اپنے طے کردہ اعمال کا نتیجہ ہیں۔