ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ و خواتین اور بچوں کا اغواء : تحریر الیاس کشمیری

1360

گذشتہ دو دھاہیوں سے بلوچ عوام پر پاکستانی سیکورٹی فورسیز کی جانب سے انتہا درجے کی جارحیت کی جا رہی ھے.بلوچ آزادی پسند تحریک کو دبانے اور کچلنے کے لیے بلوچوں کے پورے پورے گاوں مسمار کیے گئے.بچوں.بوڑھوں اور خواتین کا قتل عام کیا گیا.نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر اغواء کیا گیا اور ان اغواء شدہ .گمشدہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بناہ کسی تعطل کے ہنوز جاری ھے اور بلوچ عوام آزادی کی جدوجہد میں قربان ھونے والے ان عظیم شہداء کی مسخ شدہ لاشیں اٹھاتے ھوے نہ کوئی گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی خوف کی کیفیت تاری ھوتی ھے بلوچوں پر وہ ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ آزادی کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ھیں.بلوچ قوم قومی آزادی کی جدوجہد میں ایک ایسے مراحلے میں داخل ھو چکی ھے.جہاں ماں بیٹے کو اس شعور کے ساتھ جنم دیتی ھے کہ بیٹا بڑا ھو کر قابض قوتوں کے نا جاہز قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے ھوے عوام کی نجات کے لیے جان تک قربان کر دے گا.جہاں بہن اپنے بھائی کو یہ درس دیکر اپنے عزم اور حوصلے کا اظہار کرتی ھے کہ بھاہیا زندگی کا مقصد تو ظلم.جبر.استحصال اور نا انصافی کے خلاف اور آزادی.سوشلزم اور عالمی امن جیسی عظیم آدرشوں کے حصول کے لیے لڑنا ھے چائے ان عظیم مقاصد کے لیے یہ زندگی قربان ہی کیوں نہ ھو جاۓ.جہاں بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کو یہ درس حریت دیتا ھے کہ بیٹا تو جا کر آزادی پسندوں کے قافلے میں شامل ھو جا تیری ماں اور بہن بھاہیوں کی روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے میں کافی ھوں بیٹا تو اب مزید وقت برباد نہ کر بلوچ عوام کو تیری جدوجہد کی ضرورت ھے.عظیم قوموں کے فرزند وقت برباد نہیں کرتے جب ان کی قوم اپنی نجات کی لڑاہی لڑ رہی ھو.اور جہاں بچہ ماں سے یہ کہتا ھو کہ ماں بتاو نہ میں کب بڑا ھوں گا تو چاچو کی طرح پاکستانی فوج کو ماروں گا جھنوں نے ابو کو اغواء کیا اور بھاہیا کو گولیاں ماری ہیں.جب قوموں کی جدوجہد آزادی ایسے مرحلے میں داخل ھوتی ھے تو پس منظر میں خون کے دریا.لاشوں کے انبار. ذلت اور محرومیوں کی لمبی داستان کا سامنا کر کہ اس مرحلے تک پہنچتی ھے.اور بلوچ عوام نے تو اس سے بھی بڑھ کر مسخ شدہ لاشوں کے پہاڑوں جیسے بوجھ کو بھی ایک اجتماعی طاقتور کندھا دیا ہے اتنے بڑے پیمانے پر تاریخ میں کسی قوم نے مسخ شدہ لاشیں نہ اٹھاہی ھوں گی..بلوچ قوم نظری.فکری اور عملی بنیادوں پر اتنی واضح صاف شفاف اور منظم ھے کہ وہ دوست اور دشمن قوتوں کی خوب پہچان رکھتی ھے.آزادی پسندوں کی ایک سے ذیادہ تنظیمیں ھونے کے باوجود ہر عمل میں وہ متحد ہیں.بلوچ قوم کی آزادی اور انقلاب کی لڑاہی کا یہی وہ پس منظر ھے جس نے بلوچ قوم کو غاصب اور قابض دشمن کے ذہنی اعصاب پر سوار کر دیا ھے.بلوچ قوم کو پسپاء کرنے کے لیے ہر طرح کی نا جاہز جارحیت اختیار کرنے کے باوجود جب بلوچ قوم کے عزم حوصلے اور جزبہ آزادی میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی. تو اب پاکستانی قابض فوج نے وہ شرمناک.بے ھودہ.غلیض ہتھکنڈہ اختیار کرنا شروع کیا ھے جو انھوں نے بنگلہ دیش میں بھی عین آ خری وقت میں بنگلہ دیش میں ہاری ہوئی جنگ جیتنے کے لیے استعمال کیا تھا لیکن جنگ تب بھی ہار گئے تھے اور جنگ اب بھی ہار جاہیں گے بلکہ ہار چکے ہیں.کیونکہ کہ خواتین اور بچوں کو کوئی بھی قابض فوج اس وقت اغواء کر نا شروع کرتی ھے جب وہ ذہنی طور پر نا جاہز قبضے کی جنگ ہار چکی ھوتی ھے.ایسے بے ہودہ اور شرمناک ہتھکنڈے قومی آزادی اور انقلاب کی لڑاہی لڑنے والے انقلابیوں کے غیرت کے جزبات کو مزید ابھرتے ہیں اور وہ دشمن پر ذیادہ شدت سے وار کرتے ھیں.جو دشمن کو مزید پست ہمت کر دیتا ھے.گزشتہ دنوں کراچی سے بی.ایچ.آر او کے انفارمیشن سیکرٹری اور 9 طلباء کو سیکورٹی فورسیز نے کراچی سے اغواء کیا.اور دو دن پہلے آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ بچوں اور دیگر خواتین کو اس وقت اغواء کیا گیا جب وہ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کروانے گئی تھیں.ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ بچوں اور دیگر خواتین اور بچوں کے اغواء کے بعد بلوچ آزادی پسند تنظیموں نے اغواء شدہ تمام لوگوں کی بازیابی تک غیر معینہ مدت تک مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاون ہڑتال کا اعلان کیا ھے.جو کامیابی کے ساتھ جاری ھے.منگل کے روز گچکی پٹرول پمپ کے مقام پر فوج کی چار گاڑیوں پر آزادی پسند مسلح سرمچاروں نے حملہ کر کے گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور فوج کے سات اہلکار مارے گئے.یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب فوجی پہیہ جام ہڑتال ختم کرانے کے لیے روڈ سے ٹاہر ہٹانے کی کوشش کر رہے تھے.یاد رہے بلوچستان میں میڈیا باہیکاٹ کی تحریک پہلے سے چل رہی ھے.یہ سارے حالات اور واقعات اس صورتحال کی غمازی کرتے ہیں کہ بلوچ آزادی پسند اپنی جدوجہد آزادی میں حتمی اور فیصلہ کن مراحلے پر ہیں. کیوں کہ بلوچ عوام کی جدوجہد جاہز اور اعلی مقاصد کے لیے ھے اس لیے پاکستانی آرمی کا کوئی بھی گھناونہ شرم ناک اور جارحیت پر مبنی عمل بلوچوں کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا اور بلوچ ہر عمل پر شدید رد عمل دے رہے ھیں.اور پاکستانی فوج کی لڑائی نا جاہز قبضے کو جاری رکھنے اور توسیع پسندی کی ھے اس لیے بلوچوں کا ہر رد عمل قابض فورسیز کے ہمت اور حوصلے کو پست کر رہا ھے.جو بلوچوں کی جدوجہد میں کامیابی پر مہر ثبت ھو رہی ھے.بلوچوں کو اس پورے تحریکی عمل میں جو چوٹ پہنچی جو دھچکا لگا جو ان کے زخموں کو تر و تازہ کر گیا وہ بلوچ تحریک پر پاکستان کے باہیں بازو کی مکمل خاموشی ھے.چونکہ انقلابی دشمن سے نہ کبھی خوف کھاتے ہیں نہ کبھی گبھراتے ہیں لیکن جن قوتوں کو وہ دوست سمجھ رہے ھوتے ہیں ان پر ھونے والی جارحیت .ظلم جبر اور غیر انسانی سلوک پر وہ قوتیں خاموشی اختیار کر لیں اور موقعہ پرستی کا شکار ھو جاہیں تو انقلابیوں کو بہت تکلیف ھوتی ھے اور عظیم بلوچ انقلابی اس شدید تکلیف کو بھی برداشت کر گئے کہ ان پر ھونے والے ظلم جبر اور جارحیت پر پاکستان کے ملاں اور پاکستان کے باہیں بازو کا ایک جیسا کردار رھا ھے.اس پر تفصیلأ پھر کبھی قلم اٹھائیں گے.