بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین اور بلوچ ہیومن رائٹس آرگنازیشن کو کراچی اور کوئٹہ پریس کلبز میں پریس کانفرنس کرنے سے روکنا قابل مذمت عمل ہے۔
ترجمان : بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن
بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ کوئٹہ اور کراچی پریس کلبز میں بی ایچ آر او اور لواحقین کو جبری طور پر ریاستی سیکورٹی فورسز کی ہاتھوں اغوا ہونے والے بلوچ مسنگ اسٹوڈنٹس کیلئے پریس کانفرنس کرنے سے روکھنے کا عمل قابل مزمت ہے۔ یہ عمل آزاد میڈیا پر ایک کاری ضرب کے مترادف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے کوئٹہ پریس کلب میں جب وائس فار بلوچ مسنگ کے ذمہ داروں نے بلوچ مسنگ پرسنز کے متعلق پریس کانفرنس کرنا چاہا تو انہیں بھی پریس کلب کے صدر رضا الرحمان اور عبدلخالق نے یہ کہہ کر پریس کلب بُک کرنے سے منع کرکے روک دیا کہ ان پر اوپر سے دباؤ دیا جا رہا ہے کہ مسنگ پرسنز سے متعلق کسی کو بھی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کی اجازات نہ دی جائے اور بی ایچ ار او کے ذمہ داراں،ماما قدیر اور نصرللہ بلوچ کو حالت مجبوری میں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لگائے گئے مسنگ پرسنز کے کیمپ میں پریس کانفرنس کرنا پڑا اور اس کے بعد جب بی ایچ آر او کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری اٹھائیس اکتوبر کو کراچی سے ریاستی سیکورٹی فورسز کی جانب سے ماروائے قانون و عدالت اغوا کیا گیا تو بی ایچ آر او کو بھی کوئٹہ پریس کلب میں اظہار رائے اور اس انسانی المیہ کو میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے سے روکا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی صورتحال کراچی پریس کلب کی بھی ہے جہاں کراچی سے 15 نومبر کو اغوا ہونے والے چار نوجوان بلوچ اسٹوڈنٹس جو کہ ریاستی خفیہ اداروں اور رینجرز کے ہاتھوں جبری طور پر اغوا ہوئے تھے اور پھر بیس نومبر کو کراچی یونیورسٹی میں ایک نوجوان طالب علم جو اپنا امتحانی پرچہ دینے گیا تھا کو ریاستی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے یونیورسٹی کے اندر تمام طلبہ و طالبات کے سامنے گھسیٹ کر اغوا کیا تو بعد میں ان کے لواحقین اور بی ایچ ار او کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے سے روکا گیا۔
جنہیں بعد میں مجبوراً فٹ پات پر اپنا پریس کانفرنس کرنا پڑا اور اس سلسلے میں جب لواحقین نے مسلسل کراچی پریس کلب کے صدر سراج احمد اور شکیل یوسفی سے رابطہ کرکے پریس کانفرنس کرنے کی اجازت مانگی تو انکی بات سنی ان سنی کر کے انکا فون کاٹ دیا گیا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان سے جتنے بھی لوگ ریاستی اداروں کے ہاتھوں سے اغوا ہوتے رہے ہیں ان کے لواحقین کے ایف آئی آر بھی پولیس یہ کہہ کر درج نہیں کرتے ہیں کہ وہ ریاستی اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے ہزاروں گمشدہ لوگوں کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتے ہیں۔
میڈیا جو بلوچستان کے مضافاتی علاقوں میں پہلے سے ہی غائب ہیں اور بلوچ لواحقین کے اظہار احتجاج کا واحد ذریعہ کراچی اور کوئٹہ پریس کلبز تھے جہاں وہ اپنی فریاد دنیا تک پہنچاتے تھے مگر ان کے لئے وہ آخری دروازہ بھی اب بند کیا گیاہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ترجمان نے کہا کہ صحافیوں کو چایئے کہ وہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو پورا کر کے اپنا فرض نبائیں اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر اٹھنے والی آواز کو روکھنے کا ذریعہ کبھی نہ بنیں۔