قومیت کا یہی مشترکہ باطنی احساس قومی یکجہتی کا پہلا اور بنیادی ستون ہے. تقریباً ساٹھ برس قبل اثر لکھنوی نے ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان ’’درس اتحاد‘ تھا۔ اس نظم میں انہوں نے لفظ یکجہتی کو وسیع تر مفہوم میں استعمال کیا ہے اور سمجھایا ہے کہ یکجہتی کیا ہے۔ کہتے ہیں
الفت ہوئی رسم پارینہ
ہے اس کی جگہ دل میں کینہ
اگلوں کے چلن ہم بھول گئے
وہ رسم کہن ہم بھول گئے
آپس کی رواداری اٹھی
الفت اٹھی یاری اٹھی
وہ یوگ رہا نہ وہ پریت رہی
بس اک نفرت کی ریت رہی
یکجہتی جب مقفود ہوئی
اور فکر زیان و سود ہوئی
وہ جذب کی طاقت سلب ہوئی
توفیق ہدایت سلب ہوئی
بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس میں یکجہتی کا تصور نہیں ہے، لیکن ذرا سا غور کرنے پر یکجہتی کے لئے کلیدی اشارے مل جاتے ہیں۔ مثلاً یکجہتی کیلئے )1( باہمی الفت ضروری ہے، اس کو رسم پارینہ نہیں بنانا چاہئے )
2( البتہ ہمیں اپنے روایات کو جس کی بنیاد با ہمی محبت واحترام پر ہے، فراموش نہیں کرنا چاہئے اور یہی ہمارا قومی مقصد ہے کیونکہ بغیر یکجہتی اور اتحاد کے ہمارا شیرازہ بکھر سکتا ہے.)
3(رواداری ہی کا جز و با ہمی احترام ہے اور اسی با ہمی احترام کی کوکھ سے وسیع النظری جنم لیتی ہے۔ ہماری سیاسی ماحول اور جدوجہد کے اس کھٹن دورانیہ میں ایسا لگتا ہے کہ یہ رواداری ختم ہو رہی ہے۔ )
4( رواداری، وسیع النظری، با ہمی احترام اور اپنی روایات کے تسلسل کو فراموش کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے سود وزیاں کی فکر۔ اجتماعی سود و زیاں کا مفہوم ہوتا ہے دوسرے وجود کو نہ برداشت کرنا، صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کو قومی وژن پر مسلط کرنے کا رویہ ناکامی و نا مرادی کا اسباب بن سکتا ہے.
ارنسٹ ریناں کے خیال میں ایک قوم ماضی کی قربانیوں کے شعور اور مستقبل میں مزید قربانیاں دینے کی رضامندی کے احساس سے جنم لیتی ہے۔ مشترکہ دکھ اور مشترکہ تجربات ایک قوم کی تعمیر و تشکیل میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کی کامیابی کا ضامن ہی مجموعی قومی اتحاد رواداری برداشت تحمل مزاجی انائیت کا خاتمہ قول و فعل کی تضاد جیسے رویہ کا قلہ قمع ہے. ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آخر وجوہات کیا تھیں۔ جس کے سبب خلیج بڑھتا جارہا ہے ذہنی ہم آہنگی باہمی ربط و شرائط پر منحصر ہوکر بیگانگی کی طرف محو سفر ہیں، غیر سنجیدہ عمل بے رخی بے اعتنائی، گروہیت کے مضبوط جنّ نے ہمیں ایسا مسحور کیا ہے کہ ہم اپنا اجتماعی علاج کرنے میں بالکل قاصر ہیں.
کیا قومی تشکیل انفرادی صورت میں ہوسکتا ہے؟ منظم ادارے کی فقدانیت قومی وژن کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے؟ دنیا کی بدلتی صورت حال سرعت کے ساتھ سیاسی لہر کا متبادل رویہ اختیار کرنا قوموں کی تشکیل کے لئے عملی جدوجہد کی راہیں ہموار ہونے والی انداز سیاست سے ہم سبق لینے میں کیوں ناکام نظر آتے ہیں ؟(گو کہ حالیہ اشتراک عمل اور باہمی ربط کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے لیکن اسے پائیدار اور منظم ہونا ہوگا، وقتی ابھار کے بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیئے) پاکستان کشمیر کے مسئلے پر عالمی برادری سے رجوع کرنے جارہا ہے، گو کہ وہ چاہتا ہے کہ کشمیر ان کی پروکسی وار کا حصہ بنے لیکن تصویر کے دوسرے جانب ہمارے رویوں یا یگانگیت نے انڈیا یا اسرائیل کو مجبور کیا ہے کہ بالائی سطح پر پاکستان کی طرف سے مسلسل بلوچ قوم کی نسل کشی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اظہار رائے پر مسلسل پابندی کے خلاف اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکٹائیں؟ اگر نہیں تو کیوں ؟(منظم اور خارجہ پالیسی کے پیش نظر کہہ رہا ہوں)۔
بلوچ قومی قیادت پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا کی بدلتی صورت حال کو سمجھیں دیکھیں بھانپیں کہ قومی تشکیل لے لئے یکجہتی کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن ہی نہیں. ’’قومی یکجہتی ایسا نفسیاتی عمل ہے، جس سے وحدت، ایکتا اور جذباتی ہم آہنگی کے تصورات عوام کے دلوں میں بیدار ہوسکتے ہیں۔ جب عوامی ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر کی لہریں اپنی گن گرج سے دشمن کی طرف بڑھنی شروع کر دیں تو دنیا خود بہ خود تمہاری طرف دیکھے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ اس نظام کو چلانے اور اپنی بقاء کے لئے وسائل کی طلب سکھڑتی دنیا میں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت پر آکر رک چکی ہے.
یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر و بیشتر کئے جاتے ہیں اور اگر ان کا جواب اثبات میں ہو تو پھر قومی یکجہتی اور قومی اتحاد کے راستے از خود کھلنا شروع ہوجائیں گی فقط سوچ یہی ہو کہ
’آواز دو ہم ایک ہیں ‘
“وطن کی آبرو خطرے میں ہے ہوشیار ہو جاؤ