بلوچ وطن موومنٹ بلوچستان انڈیپینڈنس موومنٹ اور بلوچ گہار موومنٹ پر مشتمل الائنس بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے ایک بیان میں بلوچ قومی جہد کار میر محمد عالم کو ان کی قومی خدمات اور آزادی کی جدوجہد میں غیر معمولی قربانیوں کے حوالہ سے زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ مرحوم طویل علالت کے بعد 85 سال کے عمر میں گزشتہ دنوں وفات پاگئے انہیں قلات میں ہزاروں عقیدت مندوں کی موجودگی میں آسودہ خاک کیا گیا۔
جس قبرستان میں اس کی جسد خاکی مدفوں ہے وہاں سینکڑوں لوگ دفن ہیں لیکن اگر وہ قوم کے سامنے منفرد ہے تو یہ انفرادیت ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی مرہون منت ہے۔1960 میں وہ پہلا سیاسی قیدی ہے جنہیں بلوچ مزاحمت کاروں کے ہمراہ داری اور ان کے سہولت کاری کی پاداش میں نہ صرف لیویز ملازمت سے برخاست کیا گیا بلکہ چھ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
قلات جرگہ جو سرداروں پر مشتمل تھا سرداروں کے جرگہ نے انہیں گرفتار کرواکر قید کے احکامات جاری کئے گئے، یاد رہے ان کے بھائی میر دلمراد اور شہید میر غلام رسول پہاڑوں میں تھے اور بلوچ مزاحمت کے علمبردار تھے۔
ترجمان نے کہاکہ میر محمد عالم کی قربانیان اور ان کے خاندان پر ڈھائے گئے تکالیف ان کے گھر وں کی تلاشی اور آپریشن ایک ازیت کن لمحہ تھا لیکن وہ مصائب کا برابر سامنا کرتے ہوئے ان تکالیف کا لمحہ بھر پرواہ نہیں کیا آج بہت سے پارٹیاں قومی پارٹی ہونے کے بڑے دعویدار ہیں وہ ماس پارٹی اور ادارے کے طور پر خود کو ثابت کرنے کی لاکھ کوشش کرتے ہوئے ایسے گمنام سپوت وطن کو یاد کرنے کی زحمت کرنے کو گوارہ نہیں کرتے صرف ایک یہ نہیں سینکڑوں ایسے گمنام جہد کار ہیں جو ان کے یادگاری ریکارڈکا حصہ نہیں بنتے۔
ترجمان نے کہاکہ مرحوم کی قومی خدمات ناقابل فراموش ہیں ان کی قربانیاں قومی میراث ہے انہیں حسب روایت یاد کرنے سے زیادہ ان کی نظریات کو دہرانا ہے وہ اس پیر عمری میں بھی بلوچ اور بلوچستان اور قومی آزادی کی سوچ سے اٹوٹ طور پر وابسطہ تھے تحریک کے حالیہ ابھار سے وہ پر امید تھے ان کے حوصلےبہت بلند تھے خیر بخش مری کے کردار سے وہ بہت متاثر تھے جس کا اظہار اکثر وہ اپنے گفتگو میں کیا کرتے تھے خیر بخش کے لیجنڈ کردار کی وہ بہت زیادہ معترف تھے۔
ترجمان نےمزید کہا کہ مرحوم مچھ جیل میں سات سال تک قید میں رہا لیکن انہوں نے نہ تو رحم کی اپیل کی اور نہ ہی کوئی سمجھوتہ کیا ان کے بھائی کےاور خاندان کے دیگر افراد کے حوالہ سے ان پر سخت دبائو ڈالا گیا کہ وہ ان کے بارے میں انہیں معلومات فراہم کریں لیکن انہوں نے نہ تو معلومات دی اور نہ ہی کمپرو مائز کیا اور نہ ہی کوئی مراعاتی پیکج قبول کیا بعد میں اپنی پوری زندگی کسی پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں بنا اور اپنی پوری زندگی سچائی ایمانداری اور خودداری میں گزاری
ترجمان نے کہاکہ وہ جیل میں تھے کہ نواب نوروز خان اور ان کے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد کو قرآن مجید کے مقدس نام پر دھوکہ مزاکرات کے زریعہ گرفتار کیا گیا بعد میں پھانسی اور عمر قید دی گئی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اس دور میں اور بعد کے تحریکی ادوار میں کئی لوگ جو ماضی میں تحریک کا حصہ تھے ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے معمولی نوکریوں سے لیکر بڑے بڑے عہدوں تک کی سمجھوتہ اور خرید و فروخت میں تحریک آزادی سے الگ ہو گئے لیکن اس خاندان نے تمام تر ریاستی مراعات کو ٹھکرا کر محنت مزدوری کو اپنا پیشہ بنا لیا لیکن وطن فروشی اور نظریہ فروشی نہیں کی۔
آج وہ ہم سے جسمانی طور پر الگ ہے لیکن نظریاتی طور پر بلکل جدا نہیں وہ ایک سوچ ایک نظریہ ہے ایک نظریاتی اور قربانی دینے والے خاندان کا ایک تسلسل ہے وہ زندہ ہے ان کا فکر و عمل زندہ ہے۔ ترجمان نے کہاکہ مرحوم کی بیش بہا قربانیان اور کمٹمنٹ تاریخ فراموش نہیں کریگی وہ ایک انقلابی صوفی تھے جو تحریک کے اولیں صفوں کا کردار تھا