قائد اعظم یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کی جہد مسلسل کی کہانی: ٹی بی پی رپورٹ حیدر میر

808

قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں چار اکتوبر سے شروع ہونے والی احتجاج آخر کار اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا اور گذشتہ روز یونیورسٹی سے نکالے گئے بلوچ طلباء کو بحال کردیا گیا، جنھیں تیس مئی کو ہونے والے ایک جھگڑے کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔

نو اکتوبر کو سینیٹر کبیر محمد شہی، وزراء و فیکلٹی ممبران کے ساتھ یونیورسٹی میں احتجاجی کیمپ پہنچے اور طلباء کے بحالی کا نوٹیفیکیشن انکے سپرد کرکے تیس روز سے جاری احتجاج کو ختم کرنے کی درخواست کی جس کے بعد اس طویل احتجاج کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔

قائداعظم یونیورسٹی میں احتجاج کی شروعات کیوں ہوئی اور کب کیا ہوا اس حوالے سے ٹی بی پی یہ رپورٹ شائع کر رہا ہے۔

تیس مئی کو قائداعظم یونیورسٹی میں بلوچ کونسل اور مہران کونسل جو کہ سندھی طلباء کی نمائندگی کرتا ہے کہ درمیان ایک جھگڑا ہوا، جس میں زیادہ تر سندھی طلباء زخمی ہوئے، جن میں کچھ کی حالت تشویش ناک بھی تھی۔ اس جھگڑے کے بابت جب دی بلوچستان پوسٹ کے نمائیندے نے قائد اعظم یونیورسٹی کے کچھ طلباء کے ساتھ تفصیلی گفتگوکی اور اس جھگڑے کی بنیادی وجہ معلوم کی تو بتایا گیا، کہ امجد خان نامی طالب علم جسکا تعلق سندھ کے علاقے کشمور سے ہے، مگر سندھ میں رہ کر وہ اپنی بلوچ شناخت پر فخر کرتا ہے اور اسی بنیاد پر مہران کونسل کے بجائے بلوچ کونسل کا ممبر بننے کا فیصلہ کرتا ہے، جو کہ مہران کونسل کے ممران کو پسند نہیں آتا، جسکے بنیاد پر لڑائی شروع ہوتی ہے جو ایک معمولی تکرار سے شروع ہوکر دونوں کونسلوں کے درمیان تیس مئی کا واقعے پر منتج ہوتا ہے۔

اس لڑائی کی وڈیو فوٹیجز سوشل میڈیا پرعام ہوگئی، جہاں صاف طور پر دیکھا جاسکتا تھا کہ طلباء بڑی آسانی سے ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے اور دور دور تک انتظامیہ کا نام و نشان نہیں تھا، جو انکے درمیان آسکے اور لڑائی کو رکوا سکے۔ لڑائی بلآخر رک گئی اور پولیس نے آخر میں آکر بلاتفریق کئی بلوچ طلباء کو گرفتار کرکے تھانے پہنچا دیا، جسکے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ایکشن لے کر ان میں سے کئی طلباء پر جرمانے لگا دیئے، کچھ کو دو سیمسٹر تک فارغ کردیا، جبکہ کچھ کو بلا جواز مستقل طور پر ہمیشہ کے لیئے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔

یہی وہ صورتحال تھی جو آگے جاکر اکتوبر میں یونیورسٹی کا تالا بندی کا موجب بنا، سندھی اور بلوچ طلباء کا آپس میں صلح ہوگیا تھا، مگر اسکے باوجود نکالے گئے بلوچ طلباء کو بحال نہیں کیا جا رہا تھا۔ قائداعظم یونیورسٹی میں چھ طلباء کونسلز کے اتحاد نے اس حوالے سے ایک جامع احتجاج کا اعلان کیا، جہاں یونیورسٹی کے اندر روڈ بلاک کرکے احتجاجی کیمپ لگایا گیا تھا اور اپنے مطالبات 13 نکات کے شکل میں رکھی گئی، جن میں سے ایک بلوچ طلباء کی بحالی بھی تھی۔

احتجاج ختم کرنے کے لیئے کئی بار میٹنگز ہوئے، جہاں کم و بیش دوسرے مطالبات مان لیئے گئے، جو کے بلوچ کونسل سے ہٹ کر باقی کونلسز نے سامنے رکھیں تھیں اور انہوں نے اپنے مطالبات پورے ہونے پر احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا، مگر بلوچ کونسل احتجاج ختم کرنے سے انکاری رہا کیونکہ بلوچ طلباء کو اب بھی بحال نہیں کیا گیا تھا، بلوچ کونسل کے ساتھ پشتون طلباء نے بھی احتجاجی سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ بلوچ کونسل اب چھ کونسل اتحاد ‘کیو ایس ایف’ کا حصہ نہیں۔

اسٹوڈنٹس کے درمیان پھوٹ پیدا کرنے کے بعد انتظامیہ نے بلوچ و پشتون طلبہ کو کم جان کر ان پر قوت آزمائی کی اور اسلام آباد پولیس کی نفری طلب کی گئی، جنہوں نے بلوچ و پشتون طلباء پر تشدد کیا اور بعد ازاں 150 طلباء کو حراست میں لے لیا، پولیس کی جانب سے تشدد کے نتیجے میں خون سے لت پت طلباء کی تصاویر نے بلوچستان و پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طلباء کو متحرک کردیا اور 30 یونیورسٹیوں میں طلباء نے قائداعظم یونیورسٹی کے طلباء کے حق میں احتجاجی مظاہرے کرکے انتظامیہ اور حکومت پر دباو ڈالتے رہے۔

احتجاجوں اور بلوچ سیاسی پارٹیوں کے رہنماوں کی مداخلت کے بعد گرفتار طلباء کو رہا کردیا گیا، مگر یونیورسٹی انتظامیہ کے پر تشدد رویے نے طلباء کو مزید توانا کیا اور اگلے روز 60 کے قریب طلباء یونیورسٹی میں پر امن مارچ کی۔ بلوچ طلباء نے اب کے بار احتجاج کا انداز بدلا اور یونیورسٹی کے اندر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ کا اہتمام کیا، جہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو طالب علم نوروز بلوچ اور صدام بلوچ سامنے آئے، یکم نومبر سے جاری اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں سب سے پہلے صدام بلوچ بیٹھے اور اپنے تعلیمی حق کے لیئے بھوک پیاس برداشت کرتے رہے، مگر چند دن بعد ہی انکی حالت اس قدر خراب ہوگئی کہ انہیں پمز ہسپتال شفٹ کرنا پڑا، صدام کے ہسپتال جانے کی صورت میں نوروز بلوچ کیمپ میں بیٹھ گئے اور اس تسلسل کو قائم رکھا، صدام بلوچ کو ہسپتال سے واپس لایا گیا اور اب دونوں بھوک ہڑتالی کیمپ میں رہے اور وہیں پر صدام بلوچ کا علاج بھی چلتا رہا۔

چند روز گذرنے کے بعد نوروز بلوچ دوران بھوک ہڑتال، کیمپ میں ہی بے ہوش ہوگئے اور انہیں بے ہوشی کی حالت میں پمز ہسپتال شفٹ کرنا پڑا۔ ڈاکڑوں کے مطابق نوروز بلوچ کی حالت اس قدر بگڑ گئی تھی کہ اگر وہ مزید اس طرح بھوک ہڑتال میں رہے تو انکے دماغ پر اثر پڑ سکتا ہے اور اگلی بار بے ہوش ہونے کی صورت میں کوما میں جا سکتے ہیں۔

ان بلوچ طلباء کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے سینیٹر جہانزیب جمالدینی، کبیر محمد شہی و دیگر وفاقی و صوبائی وزراء آتے رہے اور دوسری جانب بلوچستان سمیت پاکستان کے دوسرے یونیورسٹیوں میں ایک بار پھر اظہار یکجہتی کے حوالے سے طلباء کی ریلیاں نکلی، کراچی یونیورسٹی میں طلباء جماعتوں نے اظہار یکجہتی کے لیئے پریس کلب کے سامنے ٹوکن بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگائی۔

بلوچ طلباء کی اسلام آباد میں حالتِ زار پوری بلوچ قوم دیکھ رہی تھی اور اس پر ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہی تھی۔ جہاں طلباء میں اضطراب تھی وہاں سیاسی نمائندے بھی حرکت میں آگئے تھے، اس حوالے سے سینیٹر ثناء بلوچ کی پاکستانی صدر سے ملاقات ہوئی جبکہ بلوچ آزادی پسند رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر نے بھی ٹویٹر پر پیغامات شائع کیئے۔

بلاخر سنڈیکیٹ کی میٹنگ بلوائی گئی اور وہاں فیصلہ طے پایا کہ ان طلبہ کو بحال کیا جائے، جنہیں یونیورسٹی سے نکالا گیا تھا یا پھر سیمسٹر روک لیئے گئے تھے۔ نوروز و صدام بلوچ کی جدوجہد رنگ لے آئی تھی، میڈیا سے بات کرتے ہوئے نوروز بلوچ نے اپنے جہد کو تمام طلباء کی جہد کا نام دیا جو انتظامیہ و اس نظام کے جبر کا شکار ہیں۔

قائداعظم یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کے احتجاج کو مشعل راہ مان کر اب پاکستان کے دوسرے بڑے یونیورسٹیوں میں طلباء اپنے حقوق کے لیئے باہر نکل آئے ہیں، جن میں ٹیکلسلہ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی میں فیسوں کی جانائز بڑھوتری کے خلاف طلباء و طالبات سراپاء احتجاج ہیں۔