بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ روز کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا بیان خود اس بات کااعتراف ہے کہ ریاست بلوچ نسل کشی میں انتاء درجے تک تیزی لانے کا منصوبہ بندی کرچکا ہے ۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز سرفراز بگٹی نے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نام نہاد قبائلی عماہدین سے خطاب میں کہا تھا کہ آزادی پسندوں کی نسل کشی کریں گے ۔بلوچستان میں فوجی جمہوریت کے منتخب کردہ ریاستی حکمرانوں کے بیانیہ جی ایچ کیو سے رٹا یا ہوا ہے ، ان کے سیاسی حیثیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ ان کو ہر خاص و عام مجلس میں عوام حقوق کی جگہ فوج وخفیہ اداروں کا دفاع کرنا ہوتا ہے ۔ بلوچستان میں پارلیمانی سیاست کرنے والے جماعتیں ریاستی چاپلوسی میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ پیسے بٹھورنے اور وفاداری کی داد وصول کرنے کیلئے بلوچ نسل کشی میں تیزی لانے کے منصوبے ریاست کو پیش کرتے ہیں انہی کے پیش کردہ منصوبوں کے تحت قابض ریاست بلوچستان میں علم و دانش کے معمار بلوچ سیاسی کارکنان، نوجوان طلباء ، انسانی حقوق کے کارکنان ، صحافی ، وکلاء و دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے باشعو ر بلوچ فرزندوں کوماروائے عدالت اغواہ و قتل کررہے ہیں ۔
ترجمان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو بلوچ نسل کش منصوبے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتاپسندی کے سرغنہ پاکستان اس منصوبے کو پایہ تکمیل پہنچانے کیلئے بلوچ نسل کشی میں انتاء درجے تک تیزی لارہا ہے جس کی مثال سیاسی انتقام میں خواتین وبچوں کی جبری گمشدگی تھی جبکہ گذشتہ روز کراچی سے بلوچ طلباء رہنما اور بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ اور تنظیم کے دو مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ ، نصیر احمد سمیت بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کے اغواہ نما گرفتاری اسی پالیسیوں کا تسلسل ہے ، اس نام نہاد ترقیاتی منصوبے کے ابتداء سے تاحال بلوچستان میں سینکڑوں گاؤں ملیامٹ ہوچکے ہیں ، ہزاروں بلوچ فرزندوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جبکہ سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوچکی ہیں قابض ریاست عالمی دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے بلوچستان میں امن و امان کا شوشہ کرکے بین القوامی سرمایاکاروں کو یہاں سرمایاکاری کیلئے آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جو کہ بین القوامی سرمایا کاروں کیلئے فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ بلوچ عوام سی پیک کے خلاف ایک منظم مزاحمت کی صورت موجود ہے،اقوام عالم اس بات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ عوامی مزاحمت کے سامنے دنیا کاکوئی بھی طاقت اپنے آپ کو زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکتا ہے ۔
علاوہ ازیں ترجمان نے کہا کہ گذشتہ روز پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کا جامعہ کراچی سے طالب علم صغیر احمد کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنا عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے کیونکہ ہم گذشتہ کئی سالوں سے کہے رہے کہ انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی پاکستان کو بلوچ نسل کشی میں مزید توانائی فراہم کررہا ہے آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بلوچ طلبا ء کیلئے کراچی جیسے شہر میں بھی تعلیمی دروازے بند کیے جارہے ہیں ، بلوچستان میں تعلیمی ادارے فوجی چھاونیوں میں تبدیل کیے گئے جہاں بلوچ طلبا ء تعلیم حاصل کر نے کے بجائے اذیت گاؤں میں پہنچ جاتے ہیں ، بلوچ طلبا ء مجبوری کے حالت میں بلوچستان سے باہر علم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں لیکن قابض ریاست نے بلوچ نسل کشی کے منصوبوں میں تیزی لاتے ہوئے بلوچستان سے باہر بھی بلوچ طلباء کے زندگیوں کو غیر محفوظ بنایا جارہا ہے جبکہ مہذب دنیا کی مزید خاموشی اس سلسلے میں شدت لانے کا باعث بنے گا