کہاں ہے وہ نام نہاد قوم پرست جو ہر بات پر قوم پرستی کی راگ الاپتے ہیں بلوچ ساحل و وسائل کی بات کرتے ہیں.
کس کے وسائل کون سے وسائل کہاں کے وسائل؟ ان درندوں کے بیچ تو ہماری عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں اور تم آئے ہو وسائل کی بات کرنے.
ہم ہر وقت سنتے ہیں کہ کسی قوم کے اندر دانشوروں کا ایک بہت کردار ہوتا ہے اس کے اوپر ظلم اور بربریت کو دنیا کے سامنے اپنے قلم کے زریعے عیان کرتے ہیں۔لیکن کہاں گئے وہ بلوچ دانشور اور لکھاری جو نجانے کتنے کتابوں کے مصنف ہیں جو سرکاری مراعات، نوکریاں اور فنڈ لینے کے بعد ایسے خاموش ہوگئے، جیسے چپ کا روزہ رکھے ہوں۔ ہم ان کو دیکھتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ قوم کے اندر سب سے بےحس اور بزدل صرف دانشور ہی ہوتے ہیں اور آج وہ قلم اٹھاتے ان کے ہاتھ لرزنے لگتے ہیں.
کدھر گئے عورتوں کی حقوق کی بات کرنے والے اور سمو راج بنانے والے. آج بلوچ عورتوں پر بات کرنے کیلئے زبان پر تالا لگا دیئے ہیں.عورتوں کی تحریک اور پوری دنیا کے عورتوں کی کردار پر لکھنے والوں کو کیا بلوچوں کی عورتیں نظر نہیں آتے.
کہاں ہے وہ لوگ جو پورے ملک میں اپنی منافقت اور مجرمانہ کاموں کو سوشلزم جیسے نظریے کے پیچھے چھپاتے ہیں.ہر جگہ ہر مجلس میں برابری، کسان اور مزدور کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں. نام نہاد سوشلسٹ سوشلزم کے اصولوں کا انحراف کرتے کرتے آج کیپٹلسٹ بن گئے.
وہ شاعر بھی نظر نہیں آرہے جو اپنے شعروں میں عورت کی زلف اور حسن کو بیان کرتے نہیں تھکتے تھے.
آج بلوچ عورتوں کے اوپر ظلم کو اپنی شاعری میں بیان کرنے پر زبان میں آبلے پڑ گئے.
وہ بلوچ لکھاری جو ناظمہ طالب کے قتل کرنے پر، شازیہ لانگو کی سرکاری مراعات لینے پر اور راحیلہ درانی کی اسمبلی اسپیکر بننے کے حوالے سے کالم آرٹیکل لکھ کر بلوچ تہذیب و تمدن اور اقدار 3،4 صفوں میں لکھتے تھے.
لیکن فضیلہ بلوچ اور دیگر بلوچ خواتین کے حوالے سے لکھنے کی وقت ان کے قلم نے کام کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے ؟
ان سب نے شاید یہ اصول اپنایا ہے.
کوئی لاپتہ ہوا ہے، ہونے دو.
کوئی مر گیا ہے، مرنے دو.
جو ہوتا ہے وہ ہونے دو.
اس نظام کو اسی طرح چلنے دو.
یہ نام نہاد لوگ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بلوچستان میں ایک قومی جنگ چل رہی ہے اور بلوچستان ایک جنگ زدہ علاقہ ہے یہاں ہر کوئی اس جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ سب اپنی اپنی باری کا انتظار کریں اور ان لوگوں کے خاموشی ان کے مجرمانہ فعل کو ظاھر کرتا ہے اور یہ سب مجرموں میں شمار ہونگے کیونکہ یہ خاموش ہو کر ریاست کے کام کو اور بھی آسان کر رہے ہیں.