بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی بیوی کو دیگر خواتین و بچوں سمیت جبری گمشدگی کی کاروائیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست نوجوانوں کی اغواء و مسخ شدہ لاشوں کو پھینکنے کی پالیسی میں مقررہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد خواتین و بچوں کے اغواء پر اتر آیا ہے۔ گزشتہ پانچ دنوں کے دوران کراچی سے کمسن بچوں و نوجوانوں سمیت آٹھ طلباء کی جبری گمشدگی اور کوئٹہ سے فضیلہ، سلمیٰ اور دیگر خواتین کا اغواء ریاست کی نئی پالیسیوں کا اظہار ہے، اس نئے پالیسی کے تحت اب بلوچ جہدکاروں کے خاندان بھی ریاست کی جبر سے محفوظ نہیں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی وقتاََ فوقتاََ بلوچ جہدکاروں کے خاندان کے افراد فورسز کے ہاتھوں شہیدکیے جا چکے ہیں،1970کی دہائی میں سینکڑوں خواتین کو فورسز نے اغواء کیا اور کئی کو قتل کردیا جبکہ 2006کے بعد ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے علاقوں سے درجنوں خواتین اغواء کیے جا چکے ہیں، کراچی اور کوئٹہ کے واقعات کے علاوہ حیدرآباد سے بھی خواتین و بچوں کے اغواء کی اطلاعات ہیں۔
کریمہ بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم آزادی کی اس جدوجہد کا شعوری طور پر حصہ بن چکی ہے، اس طرح کی غیر اخلاقی و اغیر انسانی ہتھکنڈوں سے ریاست تحریک کو کمزور نہیں کرسکتی البتہ اپنا اصل چہرہ اس طرح کی کاروائیوں سے ظاہر کررہی ہے۔ پاکستان کے جتنے بھی فیمنسٹ یا لبرل لوگ ہیں، ان کی خاموشی مذکورہ لوگوں کی منافقت کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہے۔ چند ترقی پسند کارکنوں اور انسانی حقوق کے چند ایک غیر بلوچ کارکنوں کے بجائے باقی تمام لوگ اس سنگین واقع پر بھی خاموش ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر یہی واقعہ کسی اور خطے میں ہوتا تو بجا طور پر وہ آسمان سر پر اٹھا لیتے لیکن بلوچستان میں آٹھ سالہ آفتاب، ڈیڑھ سال کی پوپل اور خواتین کا اغواء بھی ان کی خاموشی توڑنے میں ناکام ہوئی ہے۔
بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن نے کہا کہ بلوچ قوم اپنی جنگ خود لڑے گی، لیکن جبری گمشدگیوں کے مسئلے کا تعلق کسی مخصوص قوم سے نہیں بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، دنیا بھر کے تمام مہذب انسانوں کی یہ اخلاقی زمہ داری ہے کہ وہ خواتین بچوں کے اغواء جیسے جارحانہ اعمال کی ہر سطح پر مذمت کریں، کیوں کہ اگر ان معاملات پر بھی بولنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی گئی تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں بلوچ خواتین کو اغواء کے بعد قتل کرنے کا سلسلہ بھی پاکستانی فوج شروع کرسکتی ہے، ماضی میں اس طرح کی کاروائیوں کی مثالیں بنگلہ دیش اور بلوچستان میں ملتی ہیں۔