جناح یونیورسٹی سے بلوچ طلبا کو بے دخل کرنے کامقصد غلام اورآقاء کے رشتے کوبرقرار رکھناہے : بی این پی ؛ بی ایس او

205

بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مرکزی کال پرقائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچستان کے طلباء پر لاٹھی چارج اور انکے داخلے معطل کئے جانے کے خلاف بدھ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں طلباء کی بڑی تعدا د سمیت بی این پی کے رہنماوں نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر طلباء نے پلے کارڈ،بینرز اور بی ایس او کے پرچم اٹھارکھے تھے اورمطالبات کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ مظاہرے سے بی ایس او کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ،مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ،بی این پی کے مرکزی رہنما غلام نبی مری،ایچ ایس ایف کے منظورحسین اور بی ایس او مرکزی کمیٹی کے رکن حفیظ بلوچ ،زونل صدر عاطف بلوچ نے خطاب کیا۔ مقررین نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طلبا پر تشدد اور انکے داخلے معطل کرنے کے اقدام کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جانب وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیم عا م اور میرٹ پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں مگر دوسری طرف میرٹ کی دھجیاں اڑائی اور تعلیم کے شعبے کو بھی یرغمال بناکر پسند اور ناپسندکی بنیاد پر چلایا جارہا ہے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچستان کے طلباء سے یونیورسٹی اور اسلام آباد انتظامیہ کا طرز عمل انتہائی افسوسناک ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام آباد اور حکمرانوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا ایک جانب بلوچستان کی ترقی سی پیک ،گوادرکی ترقی اورنا انصافیوں کی باتیں کیجاتی ہیں تو دوسری طرف حکمرانوں کی پالیسیاں اسکے برعکس ہیں بلوچ قوم 70سال سے ظلم و جبر اور نا انصافیوں کا سامنا کر رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے ملک کا نصف سے زائد ہے مگر یہاں کے عوام اورطلباء سے حکمرانوں کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے صوبے کی حقیقی سیاسی قیادت کا راستہ روکا جاتارہا ہے بی این پی کے رہنماوں اور کارکنوں کی شہادت سے نہ تو پارٹی اور نہ ہی ہماری جدوجہدکمزورہوئی بلکہ بلوچ طلباء تعلیمی حصول کے ساتھ قومی جدوجہد میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اوربلوچ قوم کو ہمیشہ مشکلات کاسامنا رہا ہے پہلے بلوچستان اور اب ملک کے دوسرے صوبوں میں بلوچ طلباء پر حصول علم کے دروازے بند کئے جارہے ہیں اسکا مقصد غلام اورآقاء کے رشتے کوبرقرار رکھنا ہے اسلام آبادمیں ہمارے طلباء کے خلاف جوکارروائی ہوئی وہ ہمارے لئے باعث حیرت نہیں کیونکہ ہم ایسی صورتحال کا طویل عرصے سے سامنا کر رہے ہیں بلوچستان یونیورسٹی میں بھی گزشتہ سات ماہ سے طلباء سراپا احتجاج ہیں مگر انکی کوئی شنوائی نہیں ہورہی طویل عرصے سے بلوچستان میں سیاسی قیادت ،میڈیا،طلباء یہاں تک کہ ہماری مائیں بہنیں محفوظ نہیں انہوں نے کہا کہ اگر قائداعظم یونیورسٹی سمیت ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء سے رویہ تبدیل نہ کیا گیا اور قائداعظم یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کے داخلے بحال اوران پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو پرامن سیاسی اورجمہوری جدوجہد کے تمام ذرائع اختیار کرینگے جن میں احتجاجی مظاہرے ،پہیہ جا م سمیت کسی سخت اقدام سے گریز نہیں کیا جائے گا۔