جبری گمشدگی: بی ایچ آر او کا کراچی میں احتجاجی مظاہرہ

260

‎بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی جانب سے تنظیم کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطا بلوچ سمیت2 کمسن بچوں اور6 نوجوانوں کی جبری گمشدگی کے خلاف کراچی میں احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی آرٹس کونسل کراچی سے شروع ہوکر کراچی پریس کلب کے سامنے اختتام کو پہنچی۔ شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر مغویان کے تصاویر اور نعرے درج تھے۔، بلوچ رائٹس کونسل کے عبدلوہاب بلوچ ، خرم علی نئیر عوامی جمہوریہ محاذ، فاطمہ زیدی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت سینکڑوں خواتین ، نوجوانوں اور بچوں نے شرکت کی۔

‎شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات تھمنے کے بجائے شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے نوجوانوں کی گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے لیکن اب کمسن بچے بھی اس پالیسی سے محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ بلوچستان کی شورش کو طاقت کا استعمال ختم کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ بنا چکی ہے۔ ہزاروں لوگ لاپتہ اور ہزاروں کی روزگار کے ذرائع چھن چکے ہیں، ہزاروں خاندان نکل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں، لیکن اغواء کے واقعات کا شدت کے ساتھ رونماہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ریاستی ادارے اس پالیسی کو ختم کرنے بجائے اس میں شدت لارہے ہیں۔ 28اکتوبر کو کراچی سے اغواء کیے جانے والوں میں سے بی ایچ آر او کے انفارمیشن سیکرٹری نواز عطاء بلوچ آٹھ دیگر کمسن نوجوان شامل ہیں۔ ان نوجوانوں کی عمریں آٹھ سے پچیس سال کے درمیان ہیں جو کہ یہاں کراچی میں پڑھنے کی غرض سے موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی جبری گمشدگی کسی بھی طرح قابلِ جواز نہیں، پاکستان میں عدالتیں موجود ہیں اگر کسی کے خلاف کوئی الزامات ہیں تو مقدمات قائم کرکے انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے خود ہی ریاست کی قانوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔

بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ سندھ کی صوبائی حکومت کراچی سے اغواء کیے جانے والے آٹھ نوجوانوں کی گمشدگی پر مکمل خاموش ہے، حالانکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے وزیر اعلیٰ کے دائرہ اختیار میں کام کرتے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ کی زمہ داری ہے کہ وہ جبراََ گمشدہ کیے گئے نواز عطاء سمیت تمام نوجوانوں کی بازیابی کو ممکن بنانے کے لئے کردار ادا کرے۔

‎رہنماوں نے مزید کہا کہ 15نومبر رات نو بجے کے وقت کراچی رینجرز اور خفیہ اداروں نے کراچی کے یونیورسٹی روڈ موسمیات کے قریب بی ایس او آذاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنا اللہ بلوچ کو اپنے گھر سے تنظیم کے دو مرکزی کمیٹی کے رکن نصیر بلوچ ، حسام بلوچ اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ سمیت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ہے تاحال نہ ان کو منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی ان کے خاندان والوں کو ان کے بارے میں کوئی معلومات دی جارہی ہے ۔

رہنماؤں نے مزید کہا کہ بی ایس او آذاد کے رہنما ء عزت بلوچ کے اور ان کے دوستوں کے خلاف نہ کوئی ایف آئی آر درج تھی اور نہ ہی ان پر کوئی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد تھا ، اگر ان کے خلاف ریاستی قانون سے مبرا سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد تھا تو ان کو ریاستی قانون کے تحت عدالتوں میں پیش کرکے انہے قانونی طریقے سے سزا دیا جائے ان طلبا ء رہنماؤں کا اس طرح سے غائب ہونا خود ریاست اور اقوام متحدہ کی چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آزمودہ حقیقت ہے کہ تشدد کا استعمال کسی مسئلے کو حل کے بجائے مزید پیچیدگی کی طرف لے کے جاتی ہے۔ اگر ریاست کے ادارے بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں سنجیدہ ہیں تو تمام مغویوں کو فوری رہا کرکے جاری فوجی کاروائیوں کو بند کردیں۔ اگر فورسز کا رویہ بلوچوں کے ساتھ یہی رہا تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ مزید ہزاروں لوگ لاپتہ ہوجائیں گے۔ ان گمشدگیوں کے اثرات یقینی طور پر بلوچ سماج پر منفی حوالے سے پڑھیں گے۔ بی ایچ آر او کے رہنماؤں نے کہا کہ عالمی ادارے اس سلسلے کو روکنے کے لئے فوری طور ایکشن لیں اور اس سنگین مسئلے پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں