بلوچ رہنماؤں پر پابندی عائد کرنا مظلوم ومحکوم اقوام کی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے:خلیل بلوچ

462

​بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے ایک بیان میں سوئس حکومت کی جانب سے مہران مری پر پابندی اور ایئرپورٹ پر اہلیہ و بچوں سمیت حراست کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا اپنے آپ کو ایک مہذب، ترقی یافتہ، جمہوریت پسند اور اظہار رائے کی آزادی کا چیمپئن کہنے کے باوجود پاکستان جیسے ملک کی جھوٹے پروپگنڈوں کی بنیاد پر کسی کو اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگاتی ہے تو یہ حیران کن بات ہے۔ سوئیزرلینڈ اقوام متحدہ اور دوسرے انسانی حقوق کے اداروں کا ایک اہم مرکزہے جہاں ہر کوئی اپنی مدعا بیان کرسکتا ہے لیکن بلوچ رہنماؤں پر پابندی عائد کرنا مظلوم ومحکوم اقوام کی زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل ثناء اللہ بلوچ کی عدم بازیابی اور سوئس حکومت کے اس رویے پر تمام بلوچ آزادی پسندوں کو اکھٹا ہوکر ایک مشترکہ حکمت عملی اپناکر احتجاج کرنا چاہئے۔ ہم تمام آزادی پسندوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ان مسائل پر متفقہ جد وجہد کے طریقہ کار پر اتفاق کرکے پاکستان کی دہشت گردانہ پالیسیوں کو اجاگر کریں اور بلوچ رہنماؤں کے خلاف بے بنیاد الزامات کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لائیں۔ پاکستان مذہبی انتہا پسندوں کی جنت اور عالمی مطلوب دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے، اسامہ بن لادن کا فوجی چھاؤنی کے ساتھ کئی سال تک رہائش پزیر ہونا، ملا منصور اختر کی پاکستانی شہریت سے لیکر حافظ سعید کی موجودہ سرگرمیاں جیسے خطرناک کھیلوں کے باوجود اگر دنیا پاکستان پر کسی قسم کا خاطر خواہ رد عمل نہیں دکھا رہا ہے تو ہمیں ایک مضبوط آواز کے ساتھ یہ چیزیں اپنے حق میں بدلنی چاہیءں اور بلوچستان میں ہونے والی انسانیت کی خلاف سنگین جرائم پر پاکستان کو عالمی اداروں کے سامنے جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔ انہوں نے کہا سوئس واقعہ ایک مایوس کن عمل اور مہذب دنیا کی اقدار کے بر خلاف ہے۔ اس پر دوسرے مہذب ممالک و انسانی حقوق کے دعویدار وں کو ایکشن لینا چاہئے کیونکہ پاکستان جیسے دہشت گرد ملک کے دباؤ میں آکر اپنی اقدار کو بدل دینا ایک شائستہ عمل نہیں ہے اور یہ دنیا کیلئے ایک خطرناک نتیجے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان ایک مہلک کینسر کی طرح خطے و دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے، جدید سائنس کے مطابق اس کا علاج کاٹ کر پھینکنا ہے، اسی طرح پاکستان سے چھٹکارا وقت کی عین ضرورت ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ سوئس حکومت کی جانب سے مہران مری کو پیش کئے گئے مسودے میں جس طرح مہران مری اور بی آر پی کے سربراہ براہمدغ بگٹی کو ایک خطرہ قرار دیا گیا وہ کسی صورت ایک مہذب ملک کا رویہ نہیں ہوناچاہیے۔ مہران مری پندرہ سالوں سے اقوام متحدہ میں پاکستانی مظالم کو ایڈریس کرتے آرہے ہیں اور آج انہیں اچانک سوئس سرزمین کیلئے خطرہ قرار دینا اس بات کوواضح کرتا ہے کہ پاکستان کو بلوچ نسل کشی پر اعلانیہ استثنیٰ حاصل ہوگیا ہے۔ براہمدغ بگٹی جو پاکستان سے خطرے کے پیش نظر سوئس میں سیاسی پناہ کا مطالبہ کرچکے ہیں تو اس پر پاکستان کو جوابدہ بنانا چاہیے نہ کہ براہمدغ بگٹی و مہران مری پر بے بنیاد الزامات کو لیکر جوابدہ بنایا جائے۔ براہمدغ بگٹی کی بہن اور سیاسی ساتھیوں کا پاکستان کے ہاتھوں قتل ہونے جیسے سنگین مسائل پر پاکستانی اداروں پر سوئس و دوسرے مغربی ممالک میں پابندی عائد کرنی چاہئے۔
آخرمیں انہوں نے ایک دفعہ پھر اپیل کرتے ہوئے کہا سوئس حکومت کے رویے، ثناء اللہ بلوچ اور دوسروں کی عدم بازیابی کے خلاف ہمیں مشترکہ اورایک بہترین حکمت عملی اپنا کر دشمن پاکستان کو پیغام دینا چاہئے کہ پاکستان کے خلاف ایک ہیں۔