بلوچستان میں سوات طرز آپریشن کی منظوری – دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ

866

دی بلوچستان پوسٹ کو زمہ دار زرائع سے ملنے والے معلومات کے مطابق پاکستانی آرمی بلوچستان میں سوات طرز کے اپریشن کی تیاریاں کر رہا ہے۔

پاکستانی آرمی نے 16 مئی، 2009 کو پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے علاقے سوات میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کیا. اس علاقے کو طالبان کے اثر سے مکمل طور پر صاف کرنے کے لئے، شہر میں بڑے پیمانے پر فضائی اور زمینی حملے کئے گئے. شدید فوجی کارروائی کے نتیجے میں  ہزاروں افراد ہلاک اور 200،000 سے زائد شہری در بدر ہو گئے پاکستانی فورسز کی فضائی حملوں کی وجہ سے شہر کے تقریبا تمام عمارات تباہ ہوگئے تھے۔

2009 کا آپریشن بین الاقوامی سطح پرپذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب رہیکیونکہ یہ مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف تھا. تاہم،  دی بلوچستان پوسٹ (ٹی بی پی) کو قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اب اسی طرز کا آپریشن بلوچستان میں شروع کیا جا رہا ہے جہاں طالبان کے برعکس سیکولر عسکریت پسند بلوچ اپنی زمین کی آزادی کے لئے پاکستانی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

بلوچ جنگجوؤں کی جانب سے ایف ڈبلیو او کے اہلکاروں کی حالیہ ہلاکت کو آپریشن کے لئے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن پاکستان آرمی کا ایک زیلی ادارہ ہے جس نے سی پیک منصبے کے لیئے افرادی قوت فراہم کرنے کا زمہ اٹھایا ہے ۔ دو دن کے اندر جس کے کم از کم 20 اہلکاروں کو بلوچ لبریشن فرنٹ نے قتل کردیا۔

ٹی بی پی ذرائع کے مطابق تربت میں پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران، وزیر اعلیٰ ثناء اللہ زہری اور سابق وزیر اعلی ڈاکٹر ملک بلوچ کے درمیان اعلی سطحی اجلاس منعقد ہوئی.جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہےکہ سوات طرز کا فوجی آپریشن ہی سیکورٹی کے تمام خطرات کا حتمی حل ہے جو چینی فنڈڈ اربوں ڈالروں کے منصوبے سی پیک کو لاحق ہیں۔

اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مسلح گروہوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کے عمل کو فوری طور پر روک دیا جائے گا اور بڑے پیمانے پر ‘گرینڈ آپریشن’ شروع کیا جائے گا۔

بتایا جارہا ہے کے وزیراعلیٰ ثناءاللہ زہری اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک اس آپریشن کے اہم حامی ہیں۔

اجلاس میں مکران ڈویژن کے کمشنر، انسپکٹر جنرل ایف سی بلوچستان، آئی جی ایف سی جنوبی علاقے اور دیگر نے بھی باہمی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فوجی آپریشن دونوں شہروں اور دیہی پہاڑی علاقوں میں بھی کی جائے گی. عسکریت پسندوں کے علاوہ ان کے حامیوں اور ہمدردوں کو بھی فوجی آپریشن میں نشانہ بنایا جائے گا۔

فوجی حکام کی ہدایت دی گئی کہ پاکستان کی مزہبی اور سیاسی پارٹیوں سے رابطہ کر کے انھیں اس آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں لیا جا ئے۔

تصویر کا دوسرا رخ

دی بلوچستان پوسٹ (ٹی بی پی) نے خصوصی طور پر بلوچستان کی آزادی کی حامی سب سے بڑی سیاسی  پارٹی(بی این ایم) کے چیئرمین خلیل بلوچ کے خیالات کو جاننے کے لیئے ان سے بات کی۔

انہوں نے ٹی بی پی کو بتایا کہ بلوچستان پہلے سے ہی سوات سے بھی بدتر فوجی کاروائیوں کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان آرمی  عام آبادیوں پر جیٹ طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے خواتین و بچوں سمیت تمام بلوچوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

چیرمین خلیل نے کہا کہ ڈاکٹر مالک اور اس کی ٹیم کی مکمل پیمانے پر آپریشن کی تجویز دینا ہمارے لیئے کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی ان کی ہی دور حکومت میں بلوچ نسل کشی کو دوام بخشنے کے لیئے ایپیکس کمیٹی کا قیام کیا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر مالک اور حاصل بزنجو ایک بار پھر پاکستانی فوج کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کی بھر کوشش کر رہے ہیں تاکہ دوبارہ الیکشن سے پہلے فوج کی مدد حاصل کرسکیں۔

چیئرمین خلیل نے کہا کہ جن علاقوں میں ڈاکٹر مالک آپریشن کرانے کی تگ و دو میں ہیں وہاں ڈاکٹر مالک اور انکے تنطیم نیشنل پارٹی کو کوئی حمایت حاصل نہیں۔ جس کا واضع ثبوت مئی 2013 کے انتخابات ہیں جن میں صرف 3 فیصد ووٹ ہی پڑے تھے۔ اس 3 فیصد میں سے بھی کافی ووٹ بعد میں بوگس نکلے۔

بی این ایم کے چیئرمین نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں نے 2013 ء کے انتخابات کو بلوچ زمین پر ریفرنڈم کے  قرار دیا تھا گو کہ یہ انتخابات پاکستانی آرمی کی نگرانی میں کئے گئے تھےاور اب 2018 کے متوقع انتخابات میں بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹر مالک اور گروپ ایک ظالمانہ آپریشن کے خیال کو ابھار رہے ہیں۔

چیرمین خلیل نے ٹی بی پی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سی پیک چین اور پاکستان کے لیئےمرگ و زیست کی حثیت رکھتا ہے تاہم بلوچ قوتوں نے کافی حد تک اس منصوبےکو ناکام کردیا ہے۔ اس منصوبے کے لیئے بڑے پیمانے پر حفاظتی انتظامات اور علاقے میں فوجی کاروائیوں کے سبب 2 لاکھ سے زائد لوگوں کی نقل مکانی کے باوجود بھی اس منصوبے پر کام کرنے والے ایف ڈبلیو او اور پاکستانی فوج پر بلوچ مسلح تنظیمیں مسلسل حملے کرتی آرہی ہیں جو اس بات کا وضع ثبوت ہے کہ اس منصوبے کی مقدر صرف ناکامی ہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چین اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا اور خطے میں اپنی اقتصادی و عسکری بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے، جس کے لیئے وہ پاکستان کے دہشت گردانہ ریاست کا استعمال کر رہا ہے کیونکہ اس کے مقاصد کے لئے پاکستانی فوج آسانی سے کرایہ پر دستیاب ہے۔

خلیل بلوچ نے کہا کہ ہم ایک طویل عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ چین اور پاکستان کی ان سرگرمیوں کے سبب بلوچستان میں ایک انسانی بحران قائم ہے اور ہم نے مسلسل اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نہ صرف بلوچ وطن  کو بلکہ پورے خطے کو اس انسانی بحران سے بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کو تیز کرنے کا یہ خیال بلوچ قوم کو مکمل تباہ کرنے کا ایک بڑا منصوبہ ہے اور سی پیک  کے منصوبے کو کامیاب بنانا ہے. ایف ڈبلیو او کے 20 کارکنوں کی حالیہ ہلاکتوں کو صرف عذر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، تاہم یہ بین الاقوامی برادری کو دھوکہ دینے کی ایک اور ناکام کوشش ثابت ہوگی۔

ٹی بی پی نے ایک اور بلوچ رہنماء اور بی ایس او آزاد کے سابق چیرمین بشیر زیب سے بھی اس حوالے سے بات چیت کی۔

بشیر زیب کا کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی نہ صرف اس طرح کے فوجی کاروائیوں کا حامی رہاہے بلکہ خود عملی طور پر بھی ملوث رہا ہے۔

نیشنل پارٹی کو پاکستانی آرمی کی غیر مشروط طور پر حمایت کے سبب ہی آئی ایس آئی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں نے سابقہ حکومت نوازا تھا۔

بشیر زیب نے مزید کہا کہ نیشنل پارٹی زاتی مفادات و سہولیات کی خاطر بلوچ نسل کشی میں مکمل حصہ دار بن چکا ہے، آج یہ عام لباس میں ایک ایسی قوت ہے جو بلوچ قوم کے خلاف نہ صرف سیاسی بلکہ مسلح محازوں پر بھی پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی کے کارکنوں سے میری درخواست  ہے کہ انہیں اس پارٹی سے خود کو دور کرنا چاہئے جو بظاہر بلوچ حقوق کے لئے جدوجہد کا دعویٰ کرتی ہے لیکن حقیقت میں اسکی نسل کشی میں مکمل طور پر ملوث ہے۔