باپ اور بیٹا، سچ اور حقیقت : تحریر :بیبرگ بلوچ

420

صبح اٹھ کر محمد اقبال نے اپنے بیٹے کو آواز دی.
فرحان بیٹا زرا جاکر باہر بک اسٹال سے آج کا اخبار لے کر آنا کیونکہ کل میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کچھ بلوچی لوگوں کو کراچی سےنامعلوم افراد نے اٹھا کر لے گئے ہیں اور یہ بھی لکھا تھا کہ ان میں بچے بھی شامل ہیں. اس طرح کی کافرانہ کام کون کرتا ہے ہمارے ملک پاکستان جسکا مطلب لاالہ الا اللہ ہو اس ملک میں رہنے والا کوئی بھی مسلمان اس طرح کے ظلم کا سوچ بھی نہیں سکتا اور خاص کر بچون کے ساتھ بیٹا یہ کسی کافر ملک کا چال ہوگا جو ہمارے ملک کو بدنام کررہے ہیں اگر کلبھوشن یادیو پکڑا گیا ہے لیکن اس کے حواری اور ایجنٹ ابھی تک آزاد پھر رہے ہیں.اور ہاں یہ بلوچی لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ان کو رینجرز اور خفیہ اداروں نے اغواہ کر کے لاپتہ کیا ہے
فرحان نے دیر ہی نہ کیا اخبار لانے میں کیونکہ اس کے کچھ دوست بلوچ تھے وہ ان کو اپنے بلوچوں کے حالات کبھی کبھی سنایا کرتے تھے اور فرحان کو بلوچوں سے کچھ نہ کچھ ہمدردی بھی پیدا ہوگیا تھا.
محمد اقبال اخبار اٹھا کر پڑھنے لگا اور اس کا بیٹا پہلو پہ بیٹھ گیا کہ ابو ہمیں اس خبر کی تفصیلات بتائیں گے.
اس دن کی خبریں کچھ اس طرح تھے.
*کہاں کا استحکام کیسی ترقی جب سے مجھے نکالا گیا ہے اسٹاک مارکیٹ 10 ہزار سے 12 ہزار نیچے آئی. نواز شریف
*اگر نواز زرداری جعفر صادق ہے تو ان سے پوچھیں کتنا ٹیکس دیا. عمران خان
*عمران نیازی کا نام معافی نیازی ہے شیر بلا بن کر لندن میں بیٹھ گیا. زرداری
*ملک کا آئین جمعیت علمائے اسلام کے منشور کے مطابق بنی ہم اس ملک کو کبھی سیکولر بننے نہیں دیں گے. فضل الرحمن
بھارت کی لائن آف کنٹرول پر فائرنگ ایک شہری شہید اور ایک زخمی پاک فوج کی جوابی فائرنگ نے بھارتی بندوقوں کی منہ بند کرا دی. آئی ایس پی آر
آزادی پسندوں کی کمر توڑ دی ہے کچھ لوگ باہر بیٹھ کر را، خاد اور موساد سے پیسے لے کر یہاں لوگوں کو مروا رہے ہیں. ثناء زہری

محمد اقبال اس طرح کی خبریں پڑھ رہا تھا اور اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے کیونکہ اس کو یہ پریشانی لائق تھا کہ ان کچھ دنوں میں سوشل میڈیا پر بہت شور ہے کہ کراچی سے یہ دوسری دفعہ بچوں اور طلباء کو اغواء کیا جارہا ہے لیکن یہ خبر کہی نہیں مل رہا تھا. اور اسے ملنے والا بھی نہیں تھا.
فرحان پہلو پہ بیٹھا اپنے والد کے تاثرات پر غور کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس طاک میں تھا کہ ابھی وہ اس خبر کی تفصیل سننے والا ہے. کہ ان بلوچ طالب علموں اور بچوں کو کیسے،کس نے اور کس لیے اغواء کیا گیا ہے. اسی دوران فرحان نے پوچھا ابو کیا ہوگیا تو اس نے جواب دیا بیٹا عجیب بات ہے اتنا بڑا معاملہ ہوگیا ہے لیکن اخبار میں کہین بھی کچھ نہیں لکھا ہے.
فرحان یک دم سیدھا ہوا اور کہا ابو جب آپ نے کہا کہ بلوچ طالب علموں اور بچوں کو اغواہ کیا گیا ہے تو میں سمجھ گیا کہ یہ خبر کسی اخبار میں نہیں آنے والا ان کو ضرور پاکستانی ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی والوں نے اغواہ کیا ہے.
کیونکہ بلوچ قوم آزادی کی حصول کیلئے وقت سے بے خوف ہوکر، دشمن سے بے خوف، ظلم و تشدد سے بےخوف، ظالموں کی کمینگی اور اپنے ہی کمزوریوں کو پست پشت ڈال کر بہادر ہوکر لڑ رہے ہیں.
فرحان نے آگے بولا کہ بلوچ آزادی پسند اتنے مضبوط ہوگئے کہ وہ بلوچستان کے اندر جب چاہے ہر چیز کو ہلا سکتے ہیں ابو جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اخباروں کو بند کرنے کی دھمکی تو کتنے دنون سے اخبارات کی ترسیل بند ہے. آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے لیکن اسی نہاد اسلامی ملک حواسِ باختہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر اپنی کمینگی ظاہر کرتے ہوئے اب بلوچوں کے بچوں اور طلباء پر ہاتھ ڈال رہی ہے.
جب پاکستانی استعمار نے طاقت کے زور پر بلوچستان پر قبضہ کیا تو دنیا کی دیگر استعاروں کی طرح یہاں قتل غارت کا بازار گرم رکھا اور خواتین کی بے حرمتی کی گئی لیکن بلوچ نوجوانوں کے اندر یہ تاثر قائم ہوا اور وہ جان گئے ہیں کہ یہ لوگ جتنے اچھے ہو جائیں انسانی دوستی کا لباس پہن کر نوکریاں اور ترقیاتی کامون کا آئے روز بہانہ کریں لیکن پھر بھی حقیقت میں بھیڑ کی کھال میں بھیڑ ہی ہوتا ہے.
بلوچستان میں اس صورتحال کی وجہ سے حالات پلٹ گئے ہیں پاکستان کی ظلم اور بربریت نے بلوچوں کے جسموں کے اندر جان ڈال دی ہے ان کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے ان میں نئی روح پھونک دی ہے اب یہ ان کے بچوں طلباء اور عورتوں کو اغواہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک کر آپریشن کے نام پر قتل کرکےاور عورتوں کی بے حرمتی کرکے سمجھتے ہیں کہ بلوچ ڈر کر خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ جائیں لیکن یہ ہٹنے والے نہیں انہوں نے پاکستانی قبضے کے خلاف اور اپنی وطن کی آزادی کیلئے جو ہتھیار اٹھائے ہیں وہ جذباتی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک نظریہ کے بنیاد پر ہیں.
محمد اقبال نے اپنے بیٹے کی یہ باتیں سن کر خوف زدہ ہوگیا اور کہنے لگا نہیں بیٹا نہیں اس طرح کی بےوقوفوں والی باتیں مت کیا کر ہمارے ملک کی انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی ملکی سلامتی کے لیے کام کر رہے ہیں اور ملک کو دشمنوں سے بچانے کیلئے.
بعد میں اپنے بیوی کو آواز دی اور کہنے لگا ہمارے بیٹے فرحان کی عادتیں خراب ہو گئے ہیں نہ جانے کیسے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹتا ہے اور ابھی تو ملک کے خلاف باتین کرنا شروع کیا ہے لہذا آج کے بعد اس پر نظر رکھنا ہے کہ کیسے لوگوں کے ساتھ اس کی دوستی ہے سوشل میڈیا پہ کن کے ساتھ چیٹنگ کرتا ہے اور خاص کر یہ دیکھنا ہے کہ وہ کیسے اور کس قسم کی کتابیں پڑھتا ہے.