سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ‘مشرقِ وسطیٰ کے نئے ہٹلر ہیں‘۔
انھوں نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے یورپ سے سیکھا ہے کہ خوشامدانہ پالیسی کام نہیں کرتی۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایران کے نئے ہٹلر مشرقِ وسطیٰ میں وہ دہرائیں جو ہٹلر نے یورپ میں کیا تھا‘۔
سنی اکثریتی ملک سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران مشرقِ وسطیٰ میں سرد جنگ کی حالت میں ہیں اور وہ کئی ملکوں میں اپنی اپنی حمایت یافتہ تنظیموں کی مدد سے ایک دوسرے سے نبرد آزما ہیں۔
1979 میں ایران میں مذہبی حکومت قائم ہونے کے بعد سے دونوں کی رقابت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
محمد بن سلمان نے انٹرویو کے دوران کہا کہ سعودی عرب اور اس کے ہم خیال عرب ملک خطے میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و نفوذ پر بند باندھنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ کی پشت پناہی سے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے ملک میں بدعنوانی کے خلاف جاری مہم کے بارے میں کہا: ‘ہمارے ملک نے 1980 کے بعد سے اب تک بدعنوانی کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ہمارے ماہرین کا اندازہ ہے کہ ہر برس حکومتی اخراجات کا دس فیصد کے قریب بدعنوانی کی نذر ہوتا رہا ہے‘۔
انھوں نے کہا کہ ‘میرے والد (شاہ سلمان) نے دیکھا کہ اس قدر بدعنوانی کے ساتھ جی20 میں رہنا ممکن نہیں ہے‘۔
سعودی ولی عہد کے مطابق سرکاری ادارے دو سال تک تحقیقات کرتے رہے جس کے بعد سے دو سو افراد کے نام سامنے آئے جن سے اس وقت پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔
محمد بن سلمان کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں ایک کھرب ڈالر بازیاب ہونے کی امید ہے۔