اعترافِ قدامت پرستی – مرید بلوچ

398

بلوچ آزادی پسندوں سنگتوں کے آج کے خیالات و رویوں کو اگر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایک بیماری سب میں یکساں طور پر نظر آجاتا ہے کہ” میں” یا” ہم ” سب سے بہتر، سب سے اعلیٰ ہیں۔ جب بات تنقید پر آ جائے تو ہر کارکن دانشور کی خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک لمبی داستان کو قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہے ( جس کی ایک مثال مجھ جیسے لا علم کارکن کی آج یہ تحریر لکھنے کی کوشش ہے) اور جب بات قربانیوں کی ہو رہی ہو، تب ہمیں اپنا تنظیمی، پارٹی یا سرکل کا رہنما جنہیں ہم بضد قومی رہنما کا ٹائٹل دے چکے ہوتے ہیں، یاد آ جاتا ہے اسکے نام کے قصیدے لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور تمام نظریے و اصولوں کو بالائے تاک رکھتے ہوئے خاندان و رشتہ داروں کی قربانیاں، تنظیم و پارٹی کے کارکنان کی قربانیاں اسکے حصے میں ڈال دئے جاتے ہیں اور جب بات دوراندیشی و صحیح فیصلوں کی آ جائے تو دنیا کے عظیم فلاسفروں، انقلابیوں اور مختلف قوم کے قومی رہنماوٗں کا اسکیچ ذہن میں بنا کر کے سب کا مکسچر تیار کر کے ایک تصوراتی حیثیت من پسند واجہ کے نام کر دیا جاتا ہے۔

آج سے چند سال پہلے کی اگر بات کریں تو تنقیدی عمل جو بعد میں احتسابی عمل کی شکل اختیار کر گیا تھا، جسکا آغاز و انجام کس طرح اور کس سے ہوا آج تک عام بلوچ عوام و کارکناں کی نظروں سے اوجھل ہے، چونکہ اس عمل میں مجھ سمیت بہت سے جذباتی نوجوان متاثر ہو کر حصہ بنے تھے اور مخالفین پر مختلف قسم کے گولے یہاں وہاں سے اکھٹا کر کے برسا رہے تھے آج خود کو اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ یہ سارا عمل آخر کیوں تھا؟

بلوچ تحریک کے سرکلوں میں ریڈیکلزم و نیشنلزم کا نعرہ بلند ہے مگر یہاں بھی باریک بینی سے مشاہدہ کرنے پر بہت سی کمزوریاں،غلطیاں، روایتی و تصوراتی دنیا میں موجود کارکنان کی موجودگی کا ثبوت ملے گا جو ہر نقطے پر انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں، جیسے کہ مندرجہ نقطوں پر اکثر و بیشتردلائل دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

شخصیات و اجتماعیت:-

ایک طرف کچھ دوست تحریک میں ایک لیڈر کی ضروریات پر بہت زور دیتے ہیں اور مختلف دلائل دے کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی تحریک بغیر دوراندیش لیڈر کے کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اسی کے درست فیصلوں اور سخت اصول کے ہی باعث فلاں تحریک منزل کو پہنچی ہے اور اس طرح یہ خیالات کے دوست اپنے گروہ کے لیڈر کے ساتھ قوم کی تمام امیدیں وابستہ کرتے ہیں، تو دوسری طرف کچھ دوست اس پہلے سوچ کو مسترد کر کے انکے فرد کے بجائے اپنے ہی سرکلز کے گرد گھومتے گروہ کو اجتماع کا نام دے دیتے ہیں اور فرد کے بجائے اجتماعیت اور اداروں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، جنکا موقف ہے چونکہ فرد پر انسانی کمزوریاں کسی نا کسی طرح حاوی رہتی ہیں اور اگرتحریک کو کسی فرد کے ماتحت رکھا جائے تو تحریک بھی ان انسانی کمزوریوں کے اثرات سے محفوط نہیں رہ سکتا اور چاہتے نا چاہتے ہوئے وہ کمزوریاں تحریک کی کمزوریاں بن جاتی ہیں اور کہیں نا کہیں تحریک کے لئے نقصان کا سبب بن جاتی ہیں۔

ٓآخری امیدیں ہم سے-:

ایک ایسا تصوراتی سوچ بھی یہاں وجود رکھتی ہے جن کے مطابق ہم نے ہمارے لیڈر نے، ہمارے گرو پارٹی تنظیم نے جو راستہ اختیار کیا ہے یا جو نقشہ تیارر کیا ہے آزادی صرف انہیں سے حاصل کیا جا سکتا ہے، باقی تمام تنظٰمیں آخر کار ہمارے ماتحت ہو جائینگے یا عوام باقیوں سے بدزن ہو کر ہمارے پاس آئینگے اور باقی سب اپنی موت آپ مر جائینگے اور آخر کار وجود صرف اسی گروہ کا ہوگا، جو عوام کی رہنمائی کر کے منزل تک بخوشی پہنچ جائیگا۔

قبایلیت و غیر قبائلیت-:

بلوچ قومی تحریک میں تو نیشنلزم کا نعرہ بلند ہے مگر اکثر و بیشتر سردار و مڈل کلاس کی باتیں سننے کو ملتی ہیں، کسی کے لئے مڈل کلاس ہی قابل اعتماد وقابل بھروسا ہے کیونکہ وہ عوام کے اندر سے تمام مشکلات کو محسوس کر کے اس جہد کا حصہ بنا ہے تو کسی کے لئے وہ سردار و نوابزادہ ہی تحریک کا ہمدرد اور قابل اعتماد ہے کیونکہ وہ زندگی کی تمام آسائشوں کو قربان کر کے تحریک کا حصہ بنا ہے۔

فلاں محاذ فلاں سے بہتر-:

محاذوں کے ٹکراو ٗ کی باتیں اکثر مختلف کارکنوں کی زبان سے برا ہ راست یا بلواسطہ آ ہی جاتا ہے، کوئی بیرون ملک کی جہد کو تحریک کے لئے ضروری قرار دیتا ہے تو کوئی دشمن کے درمیان موجود سیاسی جہد کو تو کوئی پہاڈوں جنگلوں اور ویرانوں میں گزارے جانے والے، سرمچاری زندگی کو ہی سب سے افضل سمجھتا ہے۔ یعنی ہر کوئی جس محاذ سے جڑا ہوا ہو اسی کی پریشانیوں مشکلات کو پیش کر تا ہے اور خود پر باقیوں کی انحصاری ظاہر کرتا ہے۔

ان تمام باتوں سے ایک چیز واضح ہے کہ بلوچ کارکنان و لیڈران روایتی طرز فکر سے اب تک نکل نہیں پائے۔ ہر اک اپنے اپنے تعین کردہ سخت اصولوں پر کاربند ہے مگر کوئی ایسا اصول بنا کر اس پر کاربند نا ہونا نہیں چاہتا جس سے بلوچ قوم کی امیدیں پر اترا جا سکے اور اسکے اعتماد کو بحال کیا جا سکے۔آج بلوچ قومی جہد میں شعوری طور پر شامل کارکنان کو ان روایتی باتوں سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہئے، انکے ذہن میں بس ایک ہی سوال ہونا چاہئے کہ شہدا کے مشن کو پایا تکمیل تک کیسے پہنچایا جائے اور جب یہ سوال ذہن میں ہوگا، تو آپ کبھی رستہ نہیں بھٹکیں گے اور اس وقت ہم سب کے لئے سب سے افضل صرف شہداٗ کا مشن، اس تحریک کی کامیابی ہوگی نا کہ کسی محاز، کسی فرد، کسی پارٹی کی بالاتری پر تمام توانائی ضائع کریں گے۔ توآئیں آج سے پہلے جتنے گند جتنی بیماریاں ہمارے ذہنوں پر حاوی تھی، مل کر انکا اعتراف کریں اور عہد کریں کہ تحریک کی کامیابی و قومی آجوئی کے علاوہ کسی نقطے کو اس قدر اہمیت نہیں دینگے کہ اپنے ہی راستے کو مشکل سے مشکل تر بنا دیں۔