بلوچ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم تاریخ کے بدترین مظالم سے دوچار ہے۔ قابض پاکستانی ریاست نے جبر،تشدداوردرندگی و حیوانیت کے تمام حدود پار کرلئے ہیں ۔پاکستانی مظالم کے داستان بلوچ قوم کے لئے نئے نہیں ہیں ،گزشتہ 69 سالوں سے قابض ریاست نے مختلف طریقوں سے بلوچ قوم پر مظالم جاری رکھے ہیں۔پاکستان نے قبضے کے دن ہی سے مظالم کا سلسلہ شروع کیا۔ایک طرف قومی وسائل کااستحصال اورلوٹ مار سے شعبہ ہائے زندگی میں پسماندگی کا شکار بنا کر اکیسویں صدی کے جدید سائنسی دور میں بھی بلوچ قرون وسطیٰ کاعملی تصویرپیش کررہاہے تاکہ بلوچ قوم اپنے حقوق و شناخت کی تحفظ سے غافل ہوکرپاکستان کا ابدی غلام رہے۔ دوسری قومی شعور ، قومی سرزمین اور قومی تشخص سے مضبوط رشتے اور محکم وابستگی نے قابض کے بلوچ قوم کو پسماندہ اورحیوانی زندگی گزارنے پر مجبور کرنے والے پالیسیوں کے باوجود تحریک کا احیا ء کرکے دشمن کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملادیا تو پاکستان نے تما م عالمی قوانین کو بندوق کی نوک پر رکھ بلوچ نسل کشی کے غیرانسانی عمل کا آغاز کیا جو ہنوز جاری ہے اس وقت بلوچ قومی سرزمین ،قومی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی جود شدید خطرے سے دوچار ہے ۔ فوجی آپریشن بلوچ قوم کے لئے معمول بن چکاہے اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ شہیداور لاپتہ کئے جاچکے ہیں ۔فوج کشی سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ صرف اسی مہینے میں کئی بلوچ شہید اور کئی اغوا کرکے لاپتہ کئے گئے ہیں، جن میں ہمارے خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اٹھائیس اکتوبر کو کراچی میں تین گھروں پر چھاپے مار کر سندھ رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری نواز عطا ء،نو سالہ آفتاب یونس، بارہ سالہ الفت الطاف سمیت نو طلبا کو اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ اسی دوران شہید شہنواز کی بیوہ فرح بلوچ کو تیسری منزل سے زمین پر پھینک دیاجواس وقت موت و زیست کے کشمکش میں ہے ۔ تیس اکتوبر کو کوئٹہ سے قومی رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ اورمعروف گوریلا کمانڈراُستاد اسلم بلوچ کی ہمشیرہ سلمیٰ بلوچ کو دو خواتین و بچوں سمیت اغوا کیا۔ خواتین اور چھوٹے بچوں کو ذہنی و جسمانی تشدد کے چار دن بعدبلوچ قومی دباؤ پر رہا کردیا گیا مگربی بی سلمیٰ بلوچ کے بڑے بیٹے اور ایک کزن کو ابھی تک لاپتہ رکھا گیا ہے۔ پندرہ نومبر کو طلباء رہنما بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل ثناء اللہ عزت بلوچ کو دو مرکزی کمیٹی ممبران نصیر بلوچ ، حسام بلوچ اور بی این ایم کے رکن رفیق بلوچ کو کراچی سے فورسز نے اُٹھا کر غائب کیا۔ اسی طرح بیس نومبر کو کراچی یونیورسٹی سے صغیر بلوچ کودن کی روشنی میں طلبا کے سامنے خفیہ اداروں نے اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ ان واقعات کے خلاف بی این ایف نے پہیہ جام ہڑتال کرکے ان کی بازیابی کا مطالبہ کیا مگر قابض کا حیوانی طرزعمل جاری ہے ،قابض اپنی اس طرح درنگی اور حیوانیت سے بلوچ قوم کے اعصاب کو آزمانے کی کوشش کرہاہے تاکہ بلوچ قوم اپنی آزادی کے تحریک کے دست بردار ہوجائے مگر تاریخ بارہا ثابت کرچکاہے کہ انقلاب اور آزادی کے شاہراہ پر گامزن قوموں کو اس طرح کے فرعونیت سے شکست نہیں دیا جاسکتا ہے ۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ ہم نے ٹرانسپورٹرز اور شہریوں کی تکالیف کو مدنظر رکھ کر ہڑتال میں نرمی لاتے ہوئے کچھ دن وقفہ دیاہے لیکن بلوچ قوم کو تاریخ کے اس موڑ پر اپنی قومی وجود کے تحفظ اور بقاء کے لئے دشمن کے تمام مظالم کا سامنا کرنے او رانہیں ناکام بنانے کے لئے ذہنی طورپر تیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کسی ایسی تاریخ اور تہذیب کا وارث نہیں جس سے یہ امید رکھاجائے کہ وہ بلوچ کے ساتھ کسی تہذیب یافتہ قوم کی طرح عالمی قوانین کا پاس رکھے گا ۔
بی این ایف کے چیئرمین نے کہا کہ قابض پاکستان کے مظالم و اغواء کے خلاف بی این ایف دوسرے آزادی پسند تنظیموں سے مشاورت کے بعد جلد ہی آئندہ کا لائحہ عمل تشکیل دیکر بلوچستان میں احتجاج کے اقدامات کا اعلان کرے گی۔ بلوچ عوام، ٹرانسپورٹرز، تاجر برادری سمیت تمام طبقہ فکر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ظالم کے خلاف بی این ایف کا ساتھ دیکر اپنا قومی و انسانی فرض نبھائیں۔