پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے سینیئر صحافی حامد میر کے خلاف فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ایک مقتول ریٹائرڈ افسر خالد خواجہ کو اغوا کرنے کا مقدمہ درج کیا ہے۔
خالد خواجہ کو سنہ 2010 میں پاکستان کے قبائلی علاقے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
حامد میر اور عثمان پنجابی کے خلاف درج ہونے والے مقدمے میں خالد خواجہ کے قتل کا ذکر تو موجود ہے لیکن مقدمے میں قتل کی دفعات نہیں لگائی گئیں۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ پہلے اغوا ثابت ہوگا تو پھر قتل کے معاملے کو دیکھا جائے گا۔
صحافی حامد میر کے ساتھ دوسرا ملزم عثمان پنجابی ہے جس کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان سے بتایا جاتا ہے۔
درخواست گزار شمائما ملک جو کہ مقتول کی بیوہ ہیں کا کہنا تھا کہ حامد میر نے عثمان پنجابی کے ساتھ مل کر ان کے شوہر کو اغوا کیا اور پھر اُنھیں جنوبی وزیرستان میں قتل کر دیا گیا۔
حامد میر کے خلاف مقدمہ درج کیے جانے کی خبر سامنے آتے ہی ٹوئٹر پر انھوں نے اس پر اپنا موقف دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سات سال پرانا مقدمہ ہے، مجھے 2010 میں اسی مقدمے میں عدالت نے بے گناہ قرار دیا گیا تھا اور اب 2017 میں وہی کیس صرف میری آواز دبانے کے لیے درج کیا گیا ہے لیکن جھوٹے مقدموں سے مجھے خاموش نہیں کیا جا سکتا۔‘
سینیئر صحافی حامد میر نے دعویٰ کیا کہ اُنھیں معلوم ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے کون ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ مقامی صحافی مطیع اللہ جان پر ہونے والے حملے کے واقعے کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہیں بلکہ ایک اور صحافی ارشد شریف پر انٹیلیجنس بیورو کی طرف سے جاری کی گئی مبینہ فہرست کے بارے میں درج ہونے والے مقدمے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی صحافیوں کی ٹیم میں بھی شامل ہیں۔