سعودی عرب ہلچل: سیاسی انتقام یا حقیقی اصلاحات

236

سعودی عرب کی موجودہ صورتحال ساری دنیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ سعودی حکومت نے شاہی خاندان کے ارکان سمیت تقریباً 50 اہم ترین افراد کو گرفتار کیا تھا

سعودی حکومت نے ہفتہ چار نومبر کی رات شاہی خاندان کے ارکان سمیت تقریباً 50 اہم ترین افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ فی الحال ان کو ایک پرتعیش ہوٹل میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان کے اثاثے منجمد ہیں۔  تمام ارکان شاہی خاندان اور وزارت داخلہ کی اجازت کے بنا بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز نے چند ماہ قبل اپنے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں انسدادِ بدعنوانی کے لیے مجلس قائم کی تھی جو ہفتہ کے روز کیے گئے اس بے نظیر فیصلے کی ذمہ دار ہے۔ ناقدین کا تاہم خیال ہے کہ یہ حکومتی اقدام بدعنوانی کا قلع قمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ سیاسی باگ ڈور کو مکمل طور پر شہزادہ محمد بن سلمان کے وفاداروں کے حوالے کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ میں ان تمام شکوک و شبہات کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ تحقیقات جاری ہیں جن کے نتیجے میں مزید گرفتاریاں اور نظربندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ اسی تناظر میں بدھ آٹھ نومبر کو شاہی خاندان کے بعض دیگر افراد اور انتظامیہ کے ارکان سمیت مزید گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔

دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی حکومت کی تائید میں بیان جاری کیا جس سے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ یہ محض انتظامی اور حکومتی اصلاح کا منصوبہ نہیں بلکہ سیاسی انتقام کی کارروائی ہے۔ دوسری جانب 2015ء میں جاری کیا گیا معاشی اصلاحات 2030ء پروگرام بدعنوانی کے مسئلے کو حل کرنے پر خصوصی اصرار کرتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ کئی دہائیوں سے سعودی حکومتی اداروں اور کاروباری حلقوں میں بدعنوانی کی شکایات موجود رہی ہیں۔ 1990ء کی دہائی سے منظر عام پر آنے والی امریکی سفارتی تار سعودی عرب میں بدعنوانی کی طرف نشاندہی کرتی ہیں جبکہ 1994ء میں شائع ہونے والی سید ابورش (Saïd K. Aburish) کی کتاب ’’دی رائز، کرپشن اینڈ کمنگ فال آف دی ہاؤس آف سعود‘‘ اسی رجحان کا ببانگ دہل اظہار کرتی ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے حالیہ اقدامات تاریخی تناظر میں سعودی عرب کی معاشی اصلاحات کی جانب صحیح قدم دکھائی دیتے ہیں۔

سعودی اٹارنی جنرل شیخ سعود المعجب کے مطابق تمام نظربند حضرات کو قانونی سہولیات اور حقوق فراہم کیے جائیں گے۔ ان سے تفتیش کے عمل کا آغاز ہوچکا ہے اور عدالتی عمل شفاف اور کھلے عام کیا جائے گا۔ مگر انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ذرائع ابلاغ کو عدالتی کارروائی نشر یا شائع کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ ان کے بیان کے مطابق سعودی انسداد بدعنوانی مجلس نے اب تک کی خفیہ تحقیقات کے نتیجے میں بیش بہا شواہد جمع کیے ہیں جن کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نظر بند افراد کے کاروباری اداروں کو ان کے ذاتی افعال سے الگ رکھا گیا ہے اور ان کے کاروباری اثاثے منجمد نہیں کیے گئے۔ تاہم ذاتی اثاثوں کا انجماد عدالتی فیصلوں تک برقرار رہے گا۔ جمعرات نو نومبر کو المعجب کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق حراست میں لیے گئے سات افراد کو رہا کر دیا گیا ہے تاہم 201 دیگر سے تفتیشی عمل جاری ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب کے حالیہ اقدامات سے کاروباری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور سرمایہ کاری کا ماحول متاثر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ سعودی عرب کی حکومت 2030ء تک ملک کی معیشت کو جدید خطوط پر ڈھالنے کا ہدف رکھتی ہے۔ آئندہ 13برسوں میں سعودی حکومت تیل پر انحصار کم کر کے دوسری معدنیات اور وسائل کے ذریعے معیشت کو چلانے کا انتظام کرنے کی خواہشمند ہے جس کے لیے نہ صرف سیاسی اور معاشی سازگار ماحول کی ضرورت ہے بلکہ بدعنوانی اور افسر شاہی میں رکاوٹوں کا خاتمہ بھی لازم ہے۔ 2015ء میں وزارت معاشیات کا عہدہ سنبھالنے کے بعد محمد بن سلمان نے بارہا بدعنوانی کو سعودی حکومت کے لیے ناسور قرار دیا۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ صرف بدعنوانی کی وجہ سے سعودی سرکاری خزانے کو سالانہ 80 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے جو قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔

ریاض کے لیے بدعنوانی کا قلع قمع کرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ شاہی خاندان کے وہ افراد ہیں جو اس میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت ایسے ملزمان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے اور ان اقدامات کے شاہی خاندان کے باہمی تعلقات اور ملکی سیاسی صورتحال پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ کیا سعودی عرب کا شاہی خاندان اس بے مثال انتشار سے نکل پائے گا؟ کیا محمد بن سلمان تمام شہزادوں، قبائلی عمائدین اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ سعودی عرب اس وقت کسی بھی اندرونی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یمن کی جنگ، حوثی باغیوں کے میزائل حملے، لبنان، شام اور عراق میں ایرانی مداخلت اور سعودی مخاصمت فرمانروا کی مکمل توجہ کی طالب ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ کی مداخلت کی وجہ سے لبنانی وزیراعظم سعد حریری کا استعفیٰ سعودی حکومت کے لیے نازک وقت میں ایک اور امتحان کا درجہ رکھتا ہے۔ ایران اور حزب اللہ کا لبنان میں وجود عرب اور مغربی دنیا کے لیے ہمیشہ ایک معمہ رہا ہے۔ کوئی بھی حکومت بشمول سعودی عرب اس استطاعات کی حامل نہیں ہوتی کہ کئی بڑے محاذوں پر بیک وقت یکسوئی کے ساتھ نبردآزما ہوسکے۔ مزید برآں سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینا اور حدیث اور فقہ کی تشریحات پر نظر ثانی جیسے فیصلے سعودی حکومت کے قدامت پسند حلقوں میں تشویش اور بحث کا مؤجب ہیں۔ خبروں کے اس بھونچال میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سعودی عرب کے اندرونی اور انتظامی اصلاحات کا عمل اور یمن اور لبنان میں حالیہ واقعات دو غیر منسلک عوامل کا نتیجہ ہیں۔ معاشی اصلاحات کا آغاز 2015ء میں ہوا اور یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہیں جبکہ یمن میں مداخلت کا فیصلہ حوثی باغیوں کا یمنی حکومت گرانے کی کوششوں کے نتیجے میں پیش آیا۔ سعودی حکومت کی توقع کے برعکس یہ جنگ ختم نہیں ہوئی اور اب یہ تیسرے برس میں ہے۔

مستقبل قریب میں سعودی عرب کے حالات کے تجزیے کے لیے تین عوامل غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔

1۔ کیا سعودی حکومت اندرونی خلفشار کا شکار ہوتی ہے یا نہیں اور اصلاحات کا سلسلہ عوام اور امراء کی تائید حاصل کرپائے گا؟ سعودی عرب کی معیشت کئی بڑے اور چھوٹے مسلم یا افریقی ممالک کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کا استحکام یا انتشار عالمی معیشت پر دو رس نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس لیے سعودی عرب کی اندرونی صورتحال عالمی معیشت، خطے کی سیاست اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔

2۔ کیا سعودی عرب کے اندرونی حالات ماحول کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ماہرین کے لیے پرکشش رکھنے میں رکاوٹ تو نہیں ہوں گے؟ سعودی عرب چونکہ 2030ء تک ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا ہے اور اس کا انحصار صرف تیل کی آمدنی کی بجائے دیگر ذرائع پر منتقل کرنا چاہتا ہے تو اس مقصد کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری سعودی عرب کے لیے انتہائی اہم ہو گی۔

3۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر، قطر کے ساتھ مفاہمت سعودی عرب کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے جس کے لیے کویت اول دن سے کوشاں ہے اور قطر نے اس کی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے لیکن ریاض کو یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے منامہ، ابوظہبی اور قاہرہ کی مرضی درکار ہوگی۔ سعودی عرب کی اندرونی اصلاحات ایک پیچیدہ معاملہ ہے جو مکمل توجہ کے بغیر انتشار کی وجہ بن سکتی ہیں۔

نوید احمد  گلف میں  تحقیقاتی صحافی ہیں اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ سکیورٹی، ڈپلومیسی اور گورننس سے تعلق رکھنے والے معاملات میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں