گِرین بُک (حصہ دوئم) ترجمہ: نودبندگ بلوچ

1088

ایک نئے کارکن کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اپنی لاعلمی کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ اسے سیکھنا چاہیئے کہ ہتھیاروں کا درست استعمال کیسے کیا جاتا ہے، اسے فوجی حکمت عملی اور تفتیش کے گُر اچھے طریقے سے سیکھنا چاہیئے۔اسے OC’s یعنی ایک فوجی یونٹ کو کیسے پیشقدمی کرائی جاتی ہے اور IO’s یعنی کس طرح سے ایک موثر انٹیلی جنس جال بچھایا جاتا ہے ، سیکھنا چاہیئے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم چاہے تنظیم کے جس بھی شاخ سے تعلق رکھتے ہوں، ہمیں تحریک سے اپنی وابسطگی مضبوط بنانے کیلئے اپنے سماجی شعور کو وسیع کرنا ہوگا، اپنے موجودہ سماج کو سمجھنے کیلئے جتنی زیادہ ممکن ہو اتنی سمجھ پیدا کرنا ہوگا اور ہم اس سماج کو بدلے میں جو دینا چاہتے ہیں، اس بابت انفرادی اور اجتماعی حوالے سے خود کو علم سے آراستہ کرنا ہوگا۔

سیاسی یا عسکری جارحیت پر جانے سے پہلے ہم بہت ہی زیادہ احتیاط سے دفاعی تدابیر اختیار کرتے ہیں کیونکہ صرف اسی طرح فتح یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم تب تک ایک آزاد اور متحدہ آئرلینڈ کی وکالت نہیں کرسکتے، جب تک کہ ہم ایک آزاد آئرلینڈ پر اپنا حق ثابت نہیں کرتے اور ایک منقسم و مقبوضہ آئرلینڈ کے مقابلے میں متحدہ آئرلینڈ کے موثر پن، ضرورت اور حق کو ثابت نہیں کرتے۔ ہم تب تک تشدد کو اپنا رستہ نہیں گردانتے، جب تک کہ ہم یہ ثابت نہیں کرتے کہ ہمارے پاس اسکے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر ہم روز مرہ کے مثالوں میں دیکھیں، تو ہم تب تک جنگ کے شدت میں تیزی لانے کا دعویٰ نہیں کرتے، جب تک کہ ہم پہلے خود میں وہ صلاحیت پیدا نہیں کرتے۔ ہم تب تک کوئی حملہ نہیں کرتے جب تک ہم یہ یقینی نہیں بناتے کہ ہم نے تمام دفاعی تدابیر اختیار کرلی ہیں، یہ کہ ہمارے تمام ہتھیار برابر ہیں اور وہ کام کررہے ہیں، یہ کہ ہم یہ یقینی نہیں بناتے کہ اس حملے کے نتیجے میں ہمارے حمایت کار زیادہ ہونگے نا کہ ہم اپنے حمایتیوں سے دور ہوجائیں گے۔

اس کے باوجود دھماکوں کے بارے میں وارننگ دیتے وقت ہم سے غلطیاں ہوئیں، جس کا دشمن نے بھر پور فائدہ اٹھایا، ہماری غلطی یہ تھی کہ اس جارحانہ پالیسی کو اختیار کرنے سے پہلے ہم نے اپنے دفاعی صلاحیتوں پر زیادہ نہیں سوچا۔ نام نہاد ” بَلڈی فرائیڈے“( بلڈی فرائیڈے 21جولائی 1972 کے اس دن کو کہا جاتا ہے جب مذاکرات میں ناکامی کے بعد آئی آر اے نے بلفاسٹ شہر میں آدھے گھنٹے کے اندر بیس کار بم دھماکے کیئے، انہوں نے دھماکوں کی وارننگ پہلے دی تھی تاکہ علاقوں کو خالی کیا جائے، لیکن انکا الزام ہے کہ برطانوی سیکیورٹی فورسز نے ان وارننگز کو نظر انداز کیا اور لوگوں کو مرنے دیا، تاکہ لوگ آئی آر اے سے بد ظن ہوجائیں، جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے) اسکی ایک مثال ہے۔ جب ہمیں یہ اندازہ نہیں ہوسکا تھا کہ دشمن ان دھماکوں کو ہمارے خلاف اس طرح سے استعمال کرے گا، یا پھر یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے برطانیہ کے صلاحیتوں کا اندازہ زیادہ ہی لگادیا تھا کہ وہ ایک وقت میں اتنے دھماکے سنبھال پائیں گے۔ بہرحال جو بھی صورتحال تھی، ہم سے غلطی ہوئی اور دشمن نے اسکا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

ہمیں اسطرح کے مزید بہت سی روز مرہ کی مثالیں ملتی ہیں: جیسے دشمن ایک کارکن کا اپنے گھر میں رہنے جیسے غلطی کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اسے گرفتار کرلیتا ہے۔ جیسے دشمن لاپرواہی سے رکھے گئے اسلحہ کے غلطی کا فائدہ اٹھاتا ہے اور اس پر قبضہ کرلیتا ہے، یا پھر اپنی نئی پالیسی کے تحت وہ تب تک انتظار کرتا ہے جب تک ہمارے کارکن اس اسلحے کو اٹھانے جائیں، پھر وہ وہیں انہیں موقع پر مار دیتا ہے۔

دشمن خاص طور پر ہمارے اندرونی اختلافات سے یوں فائدہ اٹھاتا ہے کہ وہ ہمارے آپسی رنجشوں اور اختلافات سے خود کو دور کردیتا ہے اور کوئی ٹانگ نہیں اڑاتا تاکہ اختلافات کی باتیں، خود ہی عوام تک پہنچ جائیں اور عوام میں ہماری حمایت کو کمزور کردیں۔ وہ ہمارے آپسی جنگوں کو عالمی سطح پر اچھال کر فائدہ اٹھاتا ہے۔

ہم بھی حقائق کا پرچار کرکے دشمن کے غلطیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہم برطانیہ کی جانب سے کی جانے والی قتل عام کا پرچار کرکے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یاد رہے کہ حکمت عملیاں موجود حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ یہاں بھی یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہم بھی تب تک کوئی آپریشن یا مہم شروع نہیں کرسکتے، جب تک ہمارے پاس ضروری کارکنان، ہتھیار اور معاشی وسائل نا ہوں۔ حکمت عملیاں وقت و حالات پر منحصر ہوتے ہیں، جیسے کہ 1969 سے پہلے یہ ایک قابلِ قبول بات نہیں تھی کہ برطانویوں کو مار دیا جائے لیکن ” فالز کرفیو“ کے بعدیہ قابلِ قبول ٹہری کہ برطانوی شہریوں کو نشانہ بنایا جائے۔

ایک اور مثال بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ آجکل اگر دیکھا جائے تو ” ایس ڈی ایل پی“ کی قیادت ایک ریاستی پیداگیر کا کردار ادا کررہا ہے اور اپنے کردار و عمل سے خود کو قوم کا دشمن ثابت کرچکا ہے۔ ہم اسی وقت ہی انہیں نشانہ بنانے کی پالیسی اختیار کرسکتے تھے، جب وہ اس ادارے کا حصہ بنے جو آئریشوں کو تشدد کا نشانہ بناتا آیا ہے، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پہلے وہ اچھی طرح سے قوم کے سامنے واضح ہوجائیں۔

ہمارا سب سے اہم اور واضح اصول یہ ہے کہ ہم اپنے ہر عمل کی وضاحت دے سکیں، ہمارے پاس ہر ممکن دلیل ہونی چاہیئے کہ ہم کیوں دھماکے کرتے ہیں، ہم مجرموں کو سزا کیوں دیتے ہیں، ہم مخبروں کو کیوں مارتے ہیں۔

ہم اُن ضروری اقدامات کو بھی خارج از امکان نہیں کرسکتے، جو ضرورت کی بنیاد پر تحریک کے بنیادی اصولوں کے بر خلاف وقت و حالات کے بنیاد پر اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ہوتے رہیں گے کہ جب ہم تحریک کے بنیادی اصولوں کے دائرے سے باہر کچھ فیصلے کرتے ہیں یا ہمیں کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ایسے حالات کے باوجود ، جب ہم اصولوں سے ہٹ کر حقیقت پسند ی کے بنیاد پر عمل کرتے ہیں، پھر بھی ہم جارحیت سے پہلے اپنے دفاع پر توجہ دیتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی نعم البدل ہو۔

دشمن: درجہ بندی اور علاج:۔

ایک عمومی تشریح میں، دشمن وہ تمام لوگ ہیں جو تحریک کے قلیل المدتی یا طویل المدتی مقاصد کے مخالف ہوں۔ اس کے باوجودہمیں یہ بات باریک بینی کے ساتھ سمجھنا ہوگا کہ تمام دشمن ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیئے سب سے نمٹنے کا طریقہ بھی ایک نہیں ہوسکتا۔ اس لیئے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں دشمنوں کی درجہ بندی کرنا چاہیئے اور ہر درجے کے دشمن سے نمٹنے کیلئے ایک الگ حکمت عملی ہونی چاہیئے۔ مثال کے طور پر کچھ دشمن جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے دشمن ہیں، کچھ دشمن ہمارے اپنی غلطیوں سے پیدا ہونے والے دشمن ہیں اور یقینی طور پر اہم دشمن قابض یا اسٹبلشمنٹ ہے۔

لاعلمی وجہالت سے پیدا دشمن کا علاج صرف تعلیم و آگاہی سے ممکن ہے، یقینی طور پر یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ہم خود کو علم و شعور سے آراستہ نا کریں۔ ہمارے تعلیم و آگاہی کے ذرائع مظاھرے، مارچ، وال چاکنگ، پریس ریلیز، تنظیم کی جانب سے شائع ہونے والی تربیتی مواد اور یقینی طور پر آمنے سامنے ملاقات اور رابطے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ان سب کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود علم سے آراستہ ہوں، ہم خود اس قابل ہوں کہ تواتر کے ساتھ احتجاجی مظاھرے اور ریلیاں منعقد کرسکیں، یہ ضروری ہے کہ ہم خود وال چاکنگ کرنے اورنشر و اشاعت کیلئے مکمل طور پر تیار ہوں۔

ہمارے غلطیوں سے بننے والا دشمن وہ ہے، جسے ہم تحریک کے دوران اپنے انفرادی یا اجتماعی غلطیوں کی وجہ سے اپنا دشمن بنالیتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ عورت جس کے گھر کے دروازے کو کوئی کارکن گرفتاری سے بچ کر بھاگنے کیلئے توڑتا اور فرار ہوتا ہے، لیکن اس سے جتنا جلد ممکن ہوسکے معافی نہیں مانگی جاتی یا اسکے نقصان کی بھرپائی نہیں ہوتی۔ یا پھر اس شخص کا اہلخانہ یا ہمسائے جسے مخبری کے الزام میں قتل کیا جاتا ہے لیکن اس کے خاندان کو اس بابت صفائی نہیں دی جاتی اور وجہ نہیں بتائی جاتی کہ اسے کیوں قتل کیا گیا۔ پھر ایسے لوگ ہمارے غفلت یا معمولی غلطیوں تک کی وجہ سے تحریک کا دشمن بن جاتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ تحریک کے اندر ہمارے انفرادی یا اجتماعی رویے ایسے ہونے چاہیئے کہ اگر ہم تحریک کیلئے حمایت پیدا نہیں کرسکتے، تو پھر کم از کم تحریک کیلئے خود نئے دشمن بھی پیدا نا کریں۔

سب سے اہم دشمن قابض اسٹبلشمنٹ ہے، یہ اسٹبلشمنٹ ہر وہ شخص اور ادارہ ہے، جس کے مفادات ” اسٹیٹس کُو“ کے قائم رہنے اور قبضے کے جاری رہنے سے وابسطہ ہیں۔ وہ ” اسٹیٹس کو“ سیاسی، صحافتی، کاروباری، عسکری یا شہری ہوسکتا ہے۔ اس اسٹبلشمنٹ میں برطانوی فوج اور نیم فوجی ادارے بھی شامل ہیں۔ فوج اور دوسرے عسکری اداروں سے نمٹنے کا طریقہ واضح اور آزمودہ مسلح جدوجہد ہے۔ لیکن برطانوی وزیروں اور انکے آئرلینڈ میں دفاتر، عدلیہ یا اسٹبلشمنٹ کے غیر عسکری شاخوں سے نمٹنے کا طریقہ غیر واضح ہے اور وقت و حالات کے ساتھ بدلتا ہے۔

یہ ہمارا فرض اولین ہے کہ ہم دشمن کا واضح انداز میں پہچان کریں اور انہیں عوام کے سامنے واضح کریں۔ یہ بھی بہت اہم ہے کہ دشمن سے نمٹنے کی حکمت عملیاں وقت و حالت اور ہمارے صلاحیتوں کے مطابق طے ہونی چاہیئے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ دشمن کو غیر موثر کرنے کیلئے، مار دینا محض واحد راستہ یا علاج نہیں۔ خاص طور پر اسٹبلشمنٹ سے جڑے یا ریاستی آلہ کاروں کو ہم عوام کے سامنے جھوٹا، مکار، دشمن کا ہمکار ثابت کرکے شکست دے سکتے ہیں۔ ہم انہیں عوام کے سامنے ایک مذاق بناسکتے ہیں۔ جیسے انکے ہتک آمیز پوسٹر آویزاں کرکے، انکے کارٹون وغیرہ بنا کر عوام کے سامنے انہیں بے توقیر کرسکتے ہیں۔

گوریلہ حکمت عملی :۔

گوریلہ جنگ پر بہت کہا گیا ہے اور بہت سے صنائع استعمال ہوئے ہیں، اس بارے میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ گوریلہ جنگ ” پسووں کی لڑائی ہے“۔ جس طرح کچھ پسو ایک ہاتھی تک کو پریشان کرسکتے ہیں، ایک گوریلہ آرمی بھی اسی طرح ہوتا ہے، جو مارو اور بھاگو کے حکمت عملی کو استعمال کرتا ہے۔ آئریش ریپبلکن آرمی بھی یہی حکمت عملی اختیار کرکے دشمن سے لڑرہا ہے۔ جہاں ہم نا صرف مارو اور بھاگو کے پالیسی پر عمل کرتے ہیں وہیں ہم ہڑتالوں سے قابض کو معاشی طور پر قدرے کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم دشمن کو اٹھا کر سمندر میں تو نہیں پھینک سکتے لیکن ہم اپنے مندرجہ ذیل پانچ نقاطی حکمت عملی سے اسے دستبردار ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

۱۔دشمن سے لڑ کر اسکے زیادہ سے زیادہ اہلکاروں کو مارنا اور اسے نقصان دینا تاکہ برطانوی عوام اپنی فوج اور حکومت سے آئرلینڈ سے دستبردار ہونے کا مطالبہ شروع کرے۔

۲۔ ہمارے ملک میں دشمن کے معاشی اثاثوں پر دھماکوں کا ایک مضبوط سلسلہ جاری رکھنا، تاکہ یہ قبضہ دشمن کیلئے بے سود اور غیر منافع بخش ثابت ہو، اس کے ساتھ ساتھ اپنے ذمین پر اسکے کسی طویل المدتی سرمائے کاری کو کامیاب ہونے نا دیں۔

۳۔ اپنے ذمین پر دشمن کا آرام سے حکومت کرنا نا ممکن بنا دیں اور سوائے فوجی راج کے اسکے پاس ٹکنے اور حکومت کرنے کا کوئی راستہ نا بچے۔

۴۔آزادی کی جنگ کو جاری رکھنے اور قومی و عالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے مسلسل پروپگینڈے و عوامی مہمات کا سہارا لیں۔

۵۔تحریک ِ آزادی کے دفاع کی خاطر، تحریک کے مجرموں، مخبروں اور ریاستی سہولت کاروں کو سزا دیں۔

”جاری ہے“

 

ڈس کلیمر: یہ کتابچہ مصنف کی جانب سے خالصتاً تعلیمی اور تحقیقاتی بنیادوں پر شائع کیا جا رہا ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ یا اسکے کسی ایڈیٹر کا اس کتابچے اوراسکے مواد سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔