گِرین بُک – ترجمہ : نود بندگ بلوچ

1311

گِرین بُک
ترجمہ : نود بندگ بلوچ
حصہ اول

تعارف:-

گِرین بُک آئریش ریپبلکن آرمی کی شائع کردہ تربیتی اور تعارفی دستی کتابچہ ہے، جو نئے کارکنوں کیلئے ترتیب دی گئی تھی۔ اس میں قابض برطانوی فوج پر فتحیاب ہونے کیلئے فوجی مقاصد، حکمت عملیاں، طریقہ کار شامل ہیں۔ اس تربیتی کتاب نے 1950 سے آئی آراے کے نئے کارکنوں کیلئے ایک تربیتی اور تنظیم سے تعارفی دستاویز کا کردار ادا کیا ہے۔ اس تربیتی کتابچے کی نشر اور تقسیم خفیہ طریقوں سے ہوتا تھا۔ اسے نا معلوم مقام پر چھاپ کر کارکنوں میں بانٹا جاتا تھا۔ رازداری کی وجہ سے اس کتاب کے محض دو ہی ایڈیشن عوامی سطح پر منظر عام پر آئے۔پہلی بار اس کی چھپائی 1956 میں ہوئی جبکہ دوسری بار 1977 میں۔ 2005 میں آئی آراے کے جنگ بندی کے بعد اس بات کا کوئی امکان نہیں کے اسکی دوبارہ چھپائی ہوئی ہو۔ تاہم اس بات کی شنید ہے کہ آئی آراے کے کچھ نامعلوم باغی گروپوں نے اسکی دوبارہ چھپائی کی کوشش کی ہے۔ ” گرین بک“ ایک زندہ دستاویز ہے جو وقت و حالات کے ساتھ بدلتا اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔

یہ کتاب نا صرف آئریش ریپبلکن آرمی کے کارکنوں کیلئے ایک مفید تربیتی کتاب رہی ہے، بلکہ دنیا کی ہر قوم جو کسی بھی طاقتور قابض قوت کے خلاف مزاحمت کررہا ہے، اس تربیتی کتابچے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ اس کتاب میں خاص طور پر رازداری، مقصد کے بابت واضح ہونے کی ضرورت، حقیقی دشمن کی پہچان، شہری گوریلہ حکمت عملی، گرفتاری اور تشدد کے صورت میں ردعمل وغیرہ جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اس کتابچے میں بیان بہت سی باتیں اور تربیتی مواد بلوچ قومی تحریک کے صورتحال پر صادق نظر آتی ہیں۔ جس طرح رازداری کی عدم موجودگی نے بلوچ سیاسی کارکنوں کو دشمن کا آسان نشانہ بنایا اور جس طرح منزل و مقصد کے بابت غیر واضح ہونے اور تحریک کے حوالے رومانوی اور مہم جوئیانہ خیالات پالنے نے مایوسی اور تحریک سے دستبرداری و سرینڈر جیسے رجحانات کو جنم دیا، ظاھر کرتے ہیں کہ یہ ایسے امراض ہیں جو کم و بیش ہر تحریک میں پائے گئے ہیں لیکن کچھ نے انکا سدباب کا بندو بست بھی کیا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر آئریش ریپبلکن آرمی کے اس تربیتی کتاب ” گرین بک“ کو بلا اجازت ترجمہ و شائع کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

زبان بندی:۔

سب سے اہم چیز حفاظت ہے، اسکا مطلب آپ ہیں۔ کبھی بھی عوامی مقامات پر کھلے عام بات نہیں کریں۔ کبھی بھی اپنے خاندان، اپنے دوستوں، اپنی گرل فرینڈ اور کام کاج کے دوران ساتھیوں کے سامنے یہ ظاھر نہیں کرو کہ تمہارا تعلق آئریش ریپبلکن آرمی سے ہے۔ کبھی بھی فوجی معاملات پر کہیں بھی اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرو۔ آسان الفاظ میں سمجھیں تو، کسی شخص کو کچھ بھی نہیں بتاو۔

کبھی بھی عوامی ریلیوں، مظاہروں اور احتجاجوں میں نظر نہیں آو۔ کبھی بھی عوامی مقامات پر آئریش ریپبلکن آرمی کے دوسرے کارکنوں کے ساتھ گھلو ملو نہیں۔ دوسرے جانے پہچانے ریپبلکن کارکنوں کے گھر تواتر سے نہیں جاو۔ تمہارا فرضِ اولین مخفی رہنا ہے، نا صرف دشمن کی فوج سے بلکہ عوام سے بھی۔

ایک اور اہم بات جس کا ادراک تمام کارکنوں کو رکھنا پڑے گا اور اچھے طریقے سے سمجھنا پڑے گا کہ شراب نوشی کتنی خطرناک شے ہے، خاص طور پر اپنی حد سے زیادہ شراب پی کر بہک جانا۔ ماضی میں دشمن فوج اور اسکے مخبروں نے اسکا بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ بہت بڑی مقدار میں نشے میں دھت کارکنوں سے باتوں باتوں میں معلومات اکٹھی کرتے رہے ہیں۔ تمام کارکنوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ نشے کی حالت میں عوامی مقامات پر باتیں کرنا، تمام خطروں میں سے شدید ترین خطرہ ہے، جس کا سامنا کسی تنظیم کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ خاص طور پر کسی مسلح جماعت میں اسکا مطلب خود کشی کے مترادف ہے۔

کارکنوں کیلئے درسِ اول:۔

پہلے دن ہی سے ایک کارکن یہ سیکھتا ہے کہ آئریش ریپبلکن آرمی، آئریش قوم کا قانونی طور پر جائز نمائیندہ ہے اور اخلاقی طور پر اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض فوج اور اسکے ہمنوا مقامی آلہ کاروں کے خلاف مزاحمت کرے۔ تمام کارکن سمجھتے ہیں اور انہیں سمجھنا چاہیئے کہ دشمن کے خلاف مزاحمت کرنے اور آئریش قوم کی قانونی حکومت ” آئریش ریپبلکن آرمی “ کے احکامات کی پاسداری کرنے پر وہ بالکل اخلاقی طور پر حق پر ہیں۔ آئریش ریبپلکن آرمی قوم کا قانونی طور پر نمائیندہ اور فوج ہے، جسے طاقتور دشمن کی وجہ سے مجبوراً زیر ذمین جانا پڑا ہے۔

آئی آر اے، تمام کارکنوں سے بطور قوم کا قانونی نمائیندہ بغیر تحفظات کے مکمل وفاداری چاہتی ہے۔ اسکا اطلاق آپکے زندگی کے ہر شعبے پر ہوتا ہے۔ اسکے بعد آپکی کوئی ذاتی خاندانی زندگی نہیں رہتی اور نا ہی دوست۔ تمام کارکنوں کو یہ بھی اچھے طریقے سے سمجھنا ہوگا کہ تحریک کے دوران پکڑا جانا اور اذیت خانوں میں طویل عرصے تک بند رہنا ایک حقیقت ہے، یہ ایک ایسی تلوار ہے جو ہر کارکن کے سر پر لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ رومانویت کا شکار ہوکر آئی آر اے کا حصہ بنتے ہیں اور محض ایڈوینچرزم کا شکار ہوکر تنظیم میں آتے ہیں۔ لیکن جب وہ پکڑے جاتے ہیں، ان پر مشکل حالت آتی ہے یا جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں تو پھرتنظیم سے انکی وفاداری ڈگمگانے لگتی ہے۔ ان کو بہت دیر سے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ حقیقت میں انہیں کارکن بننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسے لوگ باقی کارکنوں، اپنے خاندانوں اور اردگرد کے لوگوں میں مایوسی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک اور اہم بات جس کا ادراک تمام کارکنوں کو تنظیم میں شمولیت کرنے سے پہلے رکھنا چاہیئے کہ، کیا وہ خود سے اعلیٰ آفیسر کے احکامات بجا لانے کی اہلیت رکھتا ہے؟ تمام کارکنوں کو خود سے اعلیٰ آفیسروں کے احکامات بجالانا پڑتا ہے، چاہے وہ ان احکامات کو پسند کریں یا نہیں۔

تمام نئے کارکنوں کو آئی آر اے میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ بات اچھے طریقے سے سوچنا اور سمجھنا چاہیئے کہ وہ آرمی کا حصہ کیوں بننا چاہتا ہے؟ انہیں جذباتیت، سنسنی خیزیت یا مہم جویت کی وجہ سے تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔ آپ کو سب سے پہلے اچھے طریقے سے اپنے عزائم اور ان سے جڑے خطرات کو سمجھنا چاہیئے اور یہ بے حد ضروری ہے کہ آپ یہ ابھی سے سمجھ لیں کے آپ کو تحریک میں کوئی رومانس نہیں ملے گا۔ ایک نئے کارکن کو اپنے سیاسی عزائم کا بھی احاطہ کرنا چاہیئے اور اپنے ذہن میں یہ بات ڈال کر اپنا جائزہ لینا چاہیئے کہ آئی آر اے ایک آزاد ریاست کیلئے جنگ لڑ رہی ہے۔

تمام کارکنوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ایک طاقتور فوج کے خلاف اپنی قوم کی آزادی کیلئے جنگ لڑ یں گے۔ بندوقیں اور دھماکے اس جنگ کا حصہ ہیں۔ آغاز بندوقوں سے ہوتا ہے، جب کارکنوں کو مسلح تربیت دی جاتی ہے، تو انہیں یہ بات بخوبی سمجھنا چاہیئے کہ بندوقیں خطرناک ہوتی ہیں اور بندوق کا مقصد انسانی جان لینا ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں کہیں تو قتل کرنا ہوتا ہے اور آئی آر اے کے تمام کارکنوں کو قتل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہوتی کہ آپ بغیر کسی وجہ اور جواز کے بندوق اٹھائیں اور جاکر کچھ لوگوں کو قتل کرکے آجائیں۔ آئریش ریپبلکن آرمی مضبوط جواز پر قائم ہے، اور یہی مضبوط جواز ہمیں آپس میں جوڑ کر ایک قوت بناتی ہے، اس لیئے ایک نیا کارکن بھی ان مضبوط جوازات کا مالک ہوکر ہی تنظیم کا حصہ بنے۔ وہ جواز، جو اتنے برحق اور پختہ ہیں کہ وہ آپ میں اتنا حوصلہ پیدا کرتے ہیں کہ آپ بغیر ہچکچاہٹ اور بغیر پچھتاوے کے انسانی جان لے سکیں۔

اس کے ساتھ ہی وہ تمام لوگ جو تنظیم کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ان کو یہ بات بہت اچھے طریقے سے ذہن نشین کرنا پڑے گا کہ جب وہ کسی کے زندگی کا خاتمہ کرنے جاتا ہے، تو اسکے بھی زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جب آپ پولیس یا فوج پر گولیاں برساتے ہیں تو آپ کو اس بات کا ادراک رکھنا چاہیئے کہ وہ بھی آپ پر گولیاں برسائیں گی۔ کسی بھی زیر زمین مسلح جماعت میں زندگی بہت ہی سخت، دشوار گذار، ظالم اورغیر توہماتی ہوتی ہے۔ لہٰذا تحریک کا حصہ بننے سے پہلے ان تمام عوامل پر غور کرکے قبول کرنے کے بعد ہی حصہ بننا چاہیئے۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ آئریش ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ایک قوم کے صفات رکھتی ہے اور یہ حقیقت عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ پروفیسر ایڈمنڈ کرٹس کہتے ہیں کہ ” ایلپس کے جنوب میں آئریش واحد قوم تھی جو اپنے بول چال میں باقاعدہ ادب کا استعمال کرتے تھے“ وہ مزید کہتے ہیں کہ اسے بتایا گیا تھاکہ کس طرح“ڈینز“ کو ان لوگوں نے بھگا کر نکالا ”جن کی تہذیب پورے یورپ میں چمکتے ستارے کی مانند ہے“۔ ما قبل 1169 کے ”نارمن“ حملوں کے جس نے آٹھ صدیوں پر محیط بے رحم اور نا ختم ہونے والے جنگ کا آغاز کیا اور جو آج دن تک جاری ہے۔

اس آٹھ سو سالہ جبر کا مقصد ہمارا معاشی استحصال ہے، جس میں ہمارے چھ ضلعے براہ راست برطانیہ کے قبضے میں پرانے طرز کے کالونی کے طور پر رکھے گئے ہیں اور جہاں تک جنوبی آئرلینڈ کا تعلق ہے وہ تواتر کے ساتھ لندن کے سماجی، ثقافتی اور معاشی بالادستی کا شکار ہے۔ جہاں آئریش وسائل کو انگلینڈ پر خرچ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں آئریش لڑکوں اور لڑکیوں کو مجبوراً روزگار کیلئے انگلینڈ ہجرت کرکے انکی نوکری کرنی پڑتی ہے، جنہوں نے انکے وسائل کو لوٹ کر وہاں خرچ کیا۔

عام طور پر اس لوٹ مار کیلئے ہر جگہ لفظ ” افریقنائزیشن“ استعمال ہوتا ہے۔1921 کے بعد سے لیکر ابتک خاص طور پر ہمارے ہر معاملے کو غیر آئریش لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے۔

آئریش ریپبلکن آرمی کے قیام (1916) سے لیکر ابتک ہماری صورتحال ان سامراجی قوتوں کے سامنے ایک مستقل مزاحمت اور کٹھورجنگ کی رہی ہے۔ ہم ہمیشہ جدید ترین انقلابی خیالات اور جدید گوریلا جنگی حکمت عملیوں اور طریقہ کاروں کے حصول کی کوششوں میں رہے ہیں۔ ہمارے سنگِ میل، جنگ سے جیتی عزت، قربانیوں کی طویل فہرست، جیل و بند، بھوک ہڑتالوں ، شہادتوں، پھر بھی دشمن پر کاری ضرب لگانے خاص طور پر برطانوی سامراج کے دل پر حملہ کرنے جیسے چیزوں کی وجہ سے پوری دنیا کے آزادی پسند لوگ ہمیں تسلیم کرتے اور ہماری تعریف کرتے ہیں۔

یاد رہے ، آئریش ریپبلکن آرمی کا اخلاقی جواز اور جنگ لڑنے کا حق مندرجہ ذیل شرائط پر قائم ہے
۱۔ بیرونی جارحیت کے خلاف مزاحمت کا حق۔
۲۔ظلم و جبر کے خلاف بغاوت کا حق۔
۳۔1916 کے جائز آئریش حکومت کی براہ راست وراثت کا حق۔

(جاری ہے)

ڈس کلیمر: یہ کتابچہ مصنف کی جانب سے خالصتاً تعلیمی اور تحقیقاتی بنیادوں پر شائع کیا جا رہا ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ یا اسکے کسی ایڈیٹر کا اس کتابچے اوراسکے مواد سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔