گوادر:سندھی مزدور کی داڑھی جلانے کا واقعہ : تحریر :جیئند بلوچ

737

گوادر بلوچستان کا خوبصورت ساحلی شہر ہے جس کے ہر چہار اطراف نیلگوں سمند موجزن ہے مچھلی کا کاروبار معیشت کا اہم تریں زریعہ ہے یہاں لوگ روایتی طرز زندگی گزار رہے ہیں۔ گوادر اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور بیش بہا وسائل اور سمندر کے ساتھ اہالیان گوادر کے لیئے بڑی تیزی کے ساتھ اجنبی بنتا جارہا ہے۔ جس سی پیک کا آج ہر جگہ تزکرہ کر کے اسے پاکستان کی معاشی برتری کا سبب سمجھا جارہا ہے دراصل یہی سی پیک خود گوادر کے لیئے ایک خونی اژدہ کی شکل بن کر یہاں کے باسیوں کو نگلنے پر تلی ہے۔ یہ محض امکانی خعف نہیں بلکہ تیزی کے ساتھ جاری پاکستانی سامراج کی واضح منصوبہ بندی کا عملی مظہر ہے جسے ہر بینا آنکھ دیکھ اور ہر باشعور زہن سمجھ سکتا ہے۔ گوادر، سی پیک اور اہالیان گوادر کا مستقبل بحث طلب موضوع ہے یہاں ہم ایک واقعے کا محض تزکرہ کر کے اس میں پیش آید تباہی سے اپنی بات ختم کرنے کی کوشش کرینگے کہ کیوں کر ہم پاکستانی منصوبہ کے اندر اپنی تباہی اور مستقبل کے گوادر میں خود یہاں کے قدیمی باسیوں کو اجنبی بنتے دیکھ رہے ہیں۔ اب سے غالبا ایک ہفتہ قبل جس کی صحیع تاریخ کا علم نہیں مگر رواں ہفتے کا واقعہ ہے سی پیک پر کام کرنے والے چند چائنیز انجنیئرز نے ایک سندھی مزدور کو پکڑ پر اس کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا بعد میں لائیٹر سے ان کے داڑھی جلادیئے اس دوارن پاکستان کی فوجی اہلکار جو سی پیک کی سیکیورٹی پر مامور ہوتے ہیں اور باقی پجبانی و پاکستانی مزدور و ٹیکنیکل اسٹاف بھی وہاں موجود یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ان انجنیئرز نے سندھی مزدور کو تشدد کے بعد پکڑ کر جب ان کے داڑھی جلا دیئے تو کسی نے ہمت کر کے حتی کہ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی فوج کے ایمانی جزبے سے سرشار فوجیوں نے بھی تماش بینی کے علاوہ مزدور کو چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کی اس دوران ان کا ایمانی جزبہ جاگ سکھا نا پاکستانیت کا جزبہ ان میں موجزن ہوا کہ وہ اپنے ایک ہم شہری کو کافر چائنیز سے سنت نبوی کی بے حرمتی سے چھٹکارا دلاتے۔ شاید ان ڈسپلن کے پابند سپاہیوں کو معلوم تھا کہ چونکہ چائنیز کافر ہیں ان کا دین و ایمان نہیں شاید انہیں یہ بھی معلوم پڑ چکا تھا کہ حال ہی میں رمضان جسے اسلام میں تقدس حاصل ہے کے روزوں پر وہاں پابندی اور قران جو مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے کسی بھی مسلمان کو گھر پہ رکھنے کی پابندی ہے اس لیئے فوجی ڈسپلن سے مجبور شاہینوں نے جھپٹ کر چائنیز کو پلٹنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ واقعہ چونکہ گوادر پورٹ میں پیش آیا یہاں نا صرف سندھی بلکہ پنجابی اور دیگر اقوام کے مزدور کام کرتے ہیں اس لیئے یہ واقعہ لیک ہوا اس کا چرچا پورٹ سے شہری حلقوں اور پھر سیاسی اور مذہبی حلقوں تک پہنچا جس پر چے مگوئیاں ہوئیں اس کے خلاف احتجاج کے جزوی پروگرام ترتیب دیئے گئے۔ ملائوں نے جمعہ کے خطبات اور بعد میں نماز کے بعد اس واقعہ کے خلاف ریلی اور مظاہرہ کا بھی اعلان کیا مگر وائے قسمت کہ چونکہ یہ سنت نبوی کا تقدس کہیں اور سے نہیں بلکہ ہمالیہ سے گہرے دوست کے چند بھائیوں سے سرزد ہوا تھا جن کے ہاں اسلام اور اسلامی روایات کا احترام حرف غلط ہے اسلامی طاقت پاکستان کے ہمالیہ سے مظبوط دوست نے وہاں کے مسلمانوں پر روزوہ اور نماز پڑھنے پر پابندی عائد کی ہے اس لیئے پاکستان میں اس کے خلاف کچھ نہیں کہا جاتا کہ چائنا انڈیا، اسرائیل یا کوئی اور ملک نہیں ہے بلکہ اپنا سب کچھ ہے۔ اسی طرح گوادر پورٹ میں شعائر اسلامی کی بے حرمتی کے خلاف ملائوں کی زبان پر تالہ لگا کر انہیں خاموش رہنے کی ہدایت دی گئی سو کسی نے ایک لفظ ادا نہ کیا تمام جزبات غارت ہوئے ایمانی جوش ہوا کا بلبلہ ثابت ہوا جمعہ آیا اور گزر گیا شہر میں ایک سرکش ملا ایسا نظر نہ آیا جس کے ہاتھ میں چائنا کا غلیظ جھنڈا ہو جسے جوش ایمانی سے ملغوب ہو کر نزر آتش کیا جائے۔ اس واقعے کی مذہبی جماعتوں سمیت سیاسی اور سماجی سطح پر ایک حرف نکال کر مذمت نہ کی گئی اور یوں یہ واقعہ سی پیک کی شاہراہ ترقی کے دھندلکوں میں حرف غلط بن کر مٹ گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چائنیز ابھی سے اتنے خودسر ہیں کہ وہ دیگر اقوام کے ساتھ جو چاہیں کریں حتی کہ ان کی داڑھیاں جلائیں کسی کو ان کے خلاف کہنے کی کچھ جرائت نہیں ہے جب سی پیک کا خونی منصوبہ اگر کامیاب ہو جائے چائنیز آبادی کی طوفان پنجابیوں کے ساتھ مل کر گوادر میں امڈ آئے تب مقامی بلوچ کے لیئے کیا ہوگا سمجھنے کی بات ہے۔