بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے کہا کہ میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے اظہار رائے کو بلوچ سرمچاروں سے نہیں بلکہ پاکستانی فوج اور انٹیلیجنس اداروں سے خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی جبر کو چھپانے اور بلوچ قوم کی آواز کو دبانے کے لیے پاکستان نے صحافیوں میں ایک خوف کا ماحول پیدا کیا ہے اور انٹرنیشنل میڈیا کے لیے بلوچستان کے دروازے مکمل طور پر بند کردیے ہیں۔ بی ایل ایف کی طرف سے میڈیا کو الٹی میٹم اس امر کی جانب توجہ دلانے کی کوشش ہے کہ پاکستان نے جبر اور تشدد کے ذریعے بلوچستان میں میڈیا کو غلام بنایا ہوا ہے اور اسے محض ملٹری پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ پچھلے دس سالوں میں کئی صحافیوں کوفوج نے اغوا کرکے قتل کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2008 سے لیکر 2016 تک 12 صحافیوں کو بلوچستان میں قتل کیا گیا۔ ڈیکلن واش اور کارلوتا گال سمیت انٹرنیشنل میڈیا سے وابستہ کئی صحافیوں کو بلوچستان میں کام کرنے سے روکا گیا ہے۔ ریاستی جبر سے خوفزدہ ہو کر مقامی میڈیا فوج کے ترجمان کا کردار ادا کر رہا ہے جو صحافتی اقدار کی نفی ہے۔ ایسے حالات میں جب بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قتل اور ہراساں کیا جارہا ہے صحافیوں اور صحافتی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس انسانی بحران کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، نہ کہ خوفزدہ ہو کر ریاستی پالیسیوں کی ترجمانی کریں۔ گہرام بلوچ نے مزید کہا کہ اگر میڈیا مالکان اور صحافی اپنے ضمیر کی آواز کو نظر انداز کرکے بلوچ قوم کے خلاف فوج کا ساتھ دیں گے تو انسانیت کے خلاف اس جرم میں وہ برابر کے شریک ہیں۔ ہم میڈیا کی آزادی کے حمایتی ہیں ،لیکن بلوچستان میں میڈیا آزاد نہیں بلکہ ریاستی آلہ کار کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔کیچ، گوادر، شال اور خضدارمیں چند صحافی بی ایل ایف کی موجودہ کال کی خلاف ورزی اور بلوچ دشمنی میں ملوث ہیں۔ وہ بلوچستان میں مظالم پر ریاست کے موقف کی طرفداری کر رہے ہیں۔ ان کے نام اور مختلف اعمال کی تفصیل ہمیں موصول ہوگئی ہے۔ اُن سے اپیل ہے کہ وہ اپنے عظیم پیشے کا حق ادا کرتے ہوئے بلوچ قوم پر ہونے والی مظالم کے خلاف ہمارا ساتھ دیں۔ اگر وہ ریاستی ایماپر بلوچ دشمنی کا ارتکاب کرتے رہے تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گہرام بلوچ نے مختلف واقعات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے بدھ پچیس اکتوبرکو جھاؤ کے علاقے گزی میں پاکستانی فوج کی گشتی ٹیم کی چار گاڑیوں پر گھات لگا کر حملہ کیا۔ حملے میں دو گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا اور تین فوجی اہلکار ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ آواران میں کراچی سے اخبار لانے والی ویگن سے اخبار کے بنڈل اتار کر جلاڈالے اور بی ایل ایف کے کال کی خلاف ورزی پر ویگن کے ٹائر برسٹ کئے جو ویگن مالکان کیلئے ایک تنبیہ ہے۔ گہرام بلوچ نے تربت میں پاکستان نیوز ایجنسی پر دستی بم حملے کی ذمہ داری قبو ل کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کے روز سرمچاروں نے تربت میں بھی تنبیہ کے طور پر پاکستان نیوز ایجنسی کو دستی بم سے نشانہ بنایا کیونکہ یہ نیوز ایجنسی الٹی میٹم کی معیاد ختم ہونے کے باوجود اخبارات منگوا کر فروخت کر رہا تھا۔ ایسے اخبار فروش جو بلوچستان میں رہتے ہوئے پاکستانی مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی قابض ریاست کا ساتھ دے رہے ہوں تو معاف نہیں کئے جائیں گے۔ ہم بین الاقوامی میڈیااور انسانی حقوق کے اداروں کو دعوت دیتے ہیں کہ بلوچستان آکر ریاستی جبر اور مظالم کا آنکھوں دیکھا حال بیان کریں۔ یہاں پاکستانی فوج بلوچ نسل، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہاہے۔ ایسے عالم میں ہم میڈیا سمیت ریاست کے تمام اداروں کو نشانہ بنانے میں حق بجانب ہیں۔ پاکستانی فوج اور اُس کے آلہ کاروں پر حملوں کے بعد ایک دہائی سے ہم میڈیا ہاؤسز کے بدمعاش پالیسیوں کا سامنا کرتے رہے اور کئی دفعہ اپیل کے باوجود ہماری موقف اور بلوچستان میں مظالم کو دانستہ طور پر چھپایا گیا اور اس اپیل کو ہماری کمزوری سمجھتے رہے۔