پاکستان کو بلوچ قوم نہیں بلوچستان اور اس کے وسائل درکار ہیں، بی این ایم

222

بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں عروج پر ہیں مگر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں پاکستان کی طالبان پالیسی میں بلیک میلنگ کا شکار ہوکر پاکستان کو مختلف جرائم میں مستثنیٰ تصور کر رہے ہیں۔ اس استثنیٰ سے پاکستان کو بلوچ نسل کشی میں چھوٹ حاصل ہوگئی ہے۔ اس پر فوری مداخلت نہیں کی گئی تو اس نسل کشی میں پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک اور دوسری طاقتیں جرم میں برابر شریک تصور کئے جائیں گے۔ بلوچ قوم اس وقت نہ صرف پاکستانی ریگولر آرمی سے نبردآزما ہے بلکہ اسکے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ اور مذہبی انتہا پسندوں سے تن تنہا سینہ سپر ہے۔

ترجمان نے کہا کہ آج علیٰ الصبح پاکستانی فوج مستونگ کے قصبے میں آپریشن کرکے ایک مقام پر اندھادھند فائرنگ کرکے ایک بلوچ فرزند کو شہید کیا اور کئی نہتے شہریوں کو اُٹھا کر لاپتہ کیا۔ حسب معمول آئی ایس پی آر نے ان کو دہشت گرد اور مشکوک قرار دیکر اپنے آپ کو بری الذمہ کردیا۔

اسی طرح کے آپریشنوں میں ہزاروں بلوچوں کو اغوا کے بعد لاپتہ کیا گیا ہے۔ پنجگور کے علاقے گچک میں دو دن سے زمینی اور فضائی فوجی آپریشن جاری ہے جس میں کئی افراد کو گرفتاری کے نام پر اُٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح گوادر میں ایک کمسن بچے سمیت کئی افراد کو اغوا کرکے لاپتہ کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ کیچ کے تحصیل دشت میں کئی مہینوں سے جاری آپریشن میں سینکڑوں خاندان نقل مکانی کرکے مختلف علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالیہ دنوں دشت اور کولواہ میں دوران آپریشن عورتوں کو حراسان کرنے اور جنسی زیادتی کا شکار بنانے پر بھی میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے خاموشی پر اکتفا کرکے اپنا کار وبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔دشت و گرد و نواح میں باقی ماندہ آبادی پر روزانہ کی بنیاد پر آپریشن جاری اور خواتین اور بچوں کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ فورسز کا مقصد گوادر سے متصل دشت و دوسرے علاقوں کو خالی کرنا ہے تاکہ سی پیک منصوبے کو مکمل کیا جاسکے۔ بلوچستان میں پاکستان کو بلوچ قوم نہیں بلوچستان سرزمین اور اس کے وسائل درکار ہیں۔