بگرام ایئر بیس پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ امریکا، جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کے خطرے سے بچنے کے لیے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کی ان ہی کوششوں کو جنوبی ایشیا کے لیے نئی حکمت عملی میں بھی واضح کیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم خطے کے دیگر ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں کہیں بھی دہشت گردوں کو محفوظ پنا گاہیں قائم نہ کرنے دیں جبکہ اس حوالے سے امریکا اعلیٰ سطح پر پاکستان کے ساتھ کام کر رہا ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان سے طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو موصول ہونے والی حمایت کے خلاف کارروائی کے حوالے سے مخصوص درخواستیں کی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کے لیے نئی امریکی پالیسی میں تمام چیزیں وضع کردی گئی جو شرائط پر مبنی ہیں تاہم پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی شرائط پر مبنی ہوں گے جبکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کا انحصار پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعاون پر ہے۔
امریکی سیکریٹر اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ پاکستانی قیادت سے بات چیت کے دوران ہم نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کیونکہ پاکستان کو اس صورتحال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں مبینہ طور پر کئی دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن پاکستان کو زیادہ مستحکم اور محفوظ بنانے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔
افغانستان میں بھارت کے کردار پر سوال کے جواب میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے یقینی طور پر اسلام آباد کے دورے پر بات ہوگی۔
افغانستان میں بگرام ایئر بیس پر افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور دیگر اہم عہدیداران سے ملاقات کی۔
اپنی ملاقات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کبھی بھی عسکری جنگ نہیں جیت سکتے انہیں اپنے آپ کو حکومت سے مذاکرات کرنے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے لیے افغان حکومت میں جگہ موجود ہے لہٰذا اس کے لیے وہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو ختم کرتے ہوئے اور ترقی یافتہ افغانستان کے لیے تعاون پر تیار ہوجائیں۔