نیشنل پارٹی کی حقیقت – جئیند بلوچ

422

نیشنل پارٹی اس وقت خود کو بلوچستان کی سب سے بڑی جمہوری سیاسی جماعت سمجھتی ہے اس کی قیادت کا یہ لغو خیال ہے کہ یہ ایک خالصتا مڈل کلاس طبقے کی پارٹی ہے جس میں کسی سردار کو ایک عام سیاسی ورکر پر فوقیت حاصل نہیں ہے تمام سیاسی کارکنان و قیادت ایک ہی معیار پر ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ اس کے بالکل برعکس ہے کیوں کہ نیشنل پارٹی کی قیادت میں ناصرف اکثریت کا تعلق طبقہ اشرافیہ یا نواب و سرداروں سے ہے بلکہ اب تک کی سیاست میں عام کارکنوں کی کوئی قدر و اہمیت دیکھی نہیں گئی دعوؤں کے برعکس نیشنل پارٹی سیاسی طور پر بی این پی مینگل کی طرح چند مخصوص طبقے کی ترجمانی کرتی ہے ۔ قیام کے بعد جب ڈاکٹر حئی اس کا پہلا صدر منتخب ہوا تو یہ خیال تقویت پا گئی تھی کہ اس میں مڈل کلاس ورکر کی بالادستی ہے اور این پی اصولی طور پر اینٹی سردار جماعت بن کر سابقہ نیپ کا روپ دھار سکتی ہے لیکن مختصر مدت میں اشرافیہ طبقے نے ڈاکٹر حئی کو قیادت سے ہٹا کر ڈاکٹر مالک جو مکران میں رئیس فیملی کے اپر کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کو پارٹی کا منصب صدارت دیا اس کے بعد نال کے سردار حاصل خان بزنجو کو پارٹی کا صدر بنایاگیا ۔

اس کے علاوہ نیشنل پارٹی جب دعوی کرتی ہے کہ وہ ایک قومی جمہوری جماعت ہے تو تب بھی اس میں سچائی کی کوئی رمق نہیں ہے کیوں کہ ابھی تک قومی جماعت کی پیچیدگی کا اتہ پتہ معلوم نہیں کرایاگیا کہ چار اسٹارز کے ساتھ یہ کس قوم کی قومی جماعت ہے ۔ بلوچستان میں سیاست کرتے ہوئے نیشنل پارٹی سمجھتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سہارے وہ پاکستان سطح کی جماعت بن سکتی ہے جیسا کہ میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی بنا کر ایک ناکام کوشش کی تھی ۔نیشنل پارٹی کی سیاسی تاریخ آغاز سے دیکھی جائے تو بہت کچھ دیکھا جاسکتا ہے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مددوتعاون سے اس کا جنم ہوا تھا تاکہ بلوچستان میں قوم پرستی کی سیاست کی بیخ کنی کر کے قوم پرست سیاسی بیانئے کو ختم کیا جائے کیوں کہ بلوچستان میں قوم پرست سیاست بالخصوص مزاحمتی سیاست پاکستان کی موت رہی ہے جس کا درد سر ہمیشہ کے لیئے دور کرنے کی خاطر اپنے مخصوص مہروں ڈاکٹر مالک اور میر حاصل خان کو ملا کر ملٹری قوت نے نیشنل پارٹی بنانے کی جو کوشش کی اسے اول قدم پر بلوچ قوم پرستی کی مہمیز کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ جب بی این ڈی پی اور بی این ایم کاانضمام کیا جارہا تھا تو اس وقت حاصل خان بزنجوبطور سیاسی لیڈر کسی حیثیت میں شمار نہیں تھے وہ سڑک ناپنے والے سیاسی شخص سے بڑھ کر کچھ نہیں تھے کیوں کہ بی این ڈی پی سیاسی جماعت میں شمار نہیں تھا جبکہ بی این ایم بظاہر ایک مظبوط قوم پرست انٹی اسٹیبلشمنٹ قوت تھی ۔

این پی کے قیام سے ہی چیئرمین غلام محمد نے بلوچ قوم پرستی کو ایک نئے آہنگ کے ساتھ قوت دی جو ناصرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی چالوں کو خشت اول سے شکست سے دوچار کرگئی بلکہ ہمیشہ کے لیئے نیشنل پارٹی کی اینٹی بلوچ سیاست کے گلے کی ہڈی بن گئی ۔اس بے بنیاد انضمام کی ہر سطح پر پرزور تنقید کی گئی جس کی ابتدا معروف بلوچ دانشور و ایڈیٹر انور ساجدی نے اپنے آرٹیکل سقوط بولان سے کی تھی جس پر بعدا زاں مختلف دانش ور طبقے اور سیاسی شخصیات نے قلمی وزبان طور پرسخت تنقید کی مگر حیران کن طور پر ڈاکٹر مالک اور ان کے ساتھیوں نے کسی تنقید کو خاطر میں لائے بغیر بی این ڈی پی جیسی گروہ سے بی این ایم کا بلا مشروط انضمام کردیا ۔

اس غیر فطری انضمام کو لے کر بلوچ طبقے کی شدید تریں تنقیدی عمل کے بعد اپنی چال ناکام دیکھ کر پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نیشنل پارٹی میں وہ اہمیت نظر نا آئی جن کا بلوچ قوم پرستی کے رجحان کو ختم کرنے کے متعلق سوچاگیا تھا اس لیئے قیام کے ابتدا ہی سے این پی کو وہ وقعت اور حیثیت نہیں دی گئی جس کی خاطر حاصل خان اور ڈاکٹر مالک نے جدوجہد کی تھی ۔بعد میں حالات کے زور پر جب ملٹری قوت کی تمام راہیں مسدود ہوگئیں انہیں بلوچ قوم پرستی پر مبنی تاریخی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو ایک بار پھر ان کا خیال ڈاکٹر مالک، میر حاصل خان اور نیشنل پارٹی کی جانب گیا ۔

پرویز مشرف کے ریفرنڈم یا ان سے قبل بلدیاتی انتخابات میں بھرپور شمولیت کے ساتھ نیشنل پارٹی نے فوجی قوت کو اپنی وفاداری کا گرین سگنل دے دیا دوسری جانب اس وفاداری کی بھی لاج رکھی گئی کئی مقامات پر این پی کو بلدیاتی اداروں کے اہم مناصب دیئے گئے حتی کہ 3013کے جنرل الیکشن میں فوجی قوت نے این پی کو بلوچ مزاحمت کے خلاف مکمل آزمانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بلوچستان کی وزارت اعلی بخشی جس کے عوض نیشنل پارٹی نے قرابت داری کا لازوال کردار ادا کیا ۔2013سے اب تک بلوچستان میں فوجی بربریت، چوکیاں، چیک پوسٹ، عسکری قوت میں بے پناہ اضافہ کا جو رجحان دیکھا جارہا ہے وہ سب اقتدار سے مشروط فیصلے ہیں این پی نے وزارت اعلی کے عوض فوج کو تمام اقتدار سونپ دیئے تاکہ فوج اپنی ننگی جارحیت سے بلوچستان میں قوم پرستی کے رجحان کو ختم کرے جس کا خواب این پی کے قیام سے دیکھا جارہا تھا ۔

ایک جانب ہم دیکھتے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات میں کھلی چھوٹ حاصل رہی پورے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا سیاسی حکومت کے نام پر آغاز کر کے کشت و خون کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیاگیا جو پوری طاقت کے ساتھ جاری ہے جس میں فوج ہر طرح کی جارحیت اور شدت کی مظالم میں آزاد ہے تو دوسری جانب خود نیشنل پارٹی کے اندر سیاسی سوچ کے حامل شخصیات کو سائیڈ لائن پر رکھا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اقتدار حاصل کرنے کے باوجود نیشنل پارٹی اندرونی طور پر دو لابیوں میں تقسیم ہوگئی ہے اس وقت حاصل خان کی لابی کو برتری حاصل ہے بظاہر دوسری لابی کی قیادت ڈاکٹر مالک کررہے ہیں مگر درحقیقت ڈاکٹر مالک اور میر حاصل خان اندورن خانہ ایک ہیں دوسری لابی صرف سیاسی سوچ کے حامل کارکنوں کی ہے البتہ ان کا تعلق سابقہ بی این ایم سے ہے جو حاصل خان لابی سے سخت نالان ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس لابی نے سیاست کو نقصان پہنچایا اس لابی کی خواہش ہے کہ حاصل خان اور ان کے ساتھیوں کو قیادت سے ہٹا دیا جائے مگر انہیں یہ نہیں معلوم یہ عمل بے حد مشکل بلکہ ناممکن بن گئی ہے کیوں کہ اس وقت حاصل خان کو اپنی سوچ سے قریب تر وسیع افراد کی حمایت حاصل ہے جس میں خود ڈاکٹر مالک کے علاوہ مالک کے تمام قریبی ساتھی یا مخصوص لابی شامل ہے ۔

نیشنل پارٹی میں سیاسی سوچ کے حامل افراد کے متعلق شاید کچھ لوگوں کو اعتراض ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بھی سابقہ بی این ایم کی سیاست کا ایک بڑا حصہ این پی میں موجود ہے نظر انداز شدہ یہ کارکنان چونکہ مصلحت پسندی کے شکار ہو کر وقتی مفادات ، معاشی مسائل ، تکالیف اور مشکلات کے سبب بلوچ تحریک کے براہ راست حصہ تو نہ بن سکے لیکن ان کی سوچ اب تک سیاسی ہے پارٹی کے اندر رہ کر وہ مجبوری کے سبب خاموش ہیں ۔

خلاصہ ۔ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل پارٹی کو بنانے میں سب سے بڑا کارنامہ فوجی اسٹیبشلمنٹ نے ادا کیا جس کا مقصد واضح طور پر قوم پرستی پر مبنی سیاسی سوچ کو ختم کر نا تھا مگر یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ بلوچ عوام کی اکثریت جس میں اہل دانش طبقہ جس کا زکر کیاگیااور سیاسی لیڈر شپ نے کھل کر مذمت بلکہ مزاحمت کی ۔ چیئرمین شہید غلام محمد کی شکل میں انہیں پہلی قدم پر سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جس نے بعد میں برتر شکل اختیار کر کے پاکستانی سوچ کا گھلا گھونٹ دیا ۔ نیشنل پارٹی کو 2013کے الیکشن میں اس سوچ کے تحت اقتدار دیاگیا تاکہ قوم پرستی کے نام پر فوجی طاقت کا بے دریغ استعمال کر کے ایک تیر سے دو شکار یعنی قوم پرست حکومت میں آپریشن قتل و غارت ، بلوچ وسائل کی لوٹ مار کے زریعے عام بلوچ سوچ کو قائل کیا جائے کہ قوم پرست دراصل مفادات کا ملغوبہ ہوتے ہیں مگر یہاں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ مات کھاگئی کیوں کہ نیشنل پارٹی کو بلوچ عوم نے شروع دن سے قوم پرستی کی فہرست سے خارج کر دیا تھا حاصل خان و ڈاکٹر مالک کو صرف پنجاب اور اسلام آباد میں قوم پرست سمجھا جاتا ہے بلوچستان میں انہیں فوج کا پٹھو ہی مانا جاتا ہے ۔