میڈیا کے حوالے سے ہمارا احتجاج صحافیوں کو دباؤ دینا نہیں : بی ایل ایف

554

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ دن کوئٹہ پریس کلب کے سامنے صحافی حضرات کا احتجاجی مظاہرہ اور تحفظ کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ذمہ دار صحافیوں کو بلوچ آزادی پسندوں کی طرف سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوناچاہیے۔ ہم صحافیوں کے تحفظ اور اظہار رائے کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں ۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور اس کے پالے ہوئے انتہا پسندوں کی جانب سے صحافیوں کا بے دریغ قتل ثبوت کیلئے کافی ہے کہ انہیں بلوچ آزادی پسندوں سے نہیں بلکہ ریاست پاکستان سے خطرہ ہے۔بلوچ صحافی ارشاد مستوئی کو ساتھیوں سمیت کوئٹہ کینٹ سے چند گز کے فاصلے پر جس طرح قتل کرکے شہید کیاگیا وہ کسی سے زیادہ صحافی برادری کو بہتر پتہ ہے کہ قاتل کون ہیں۔ اسی طرح گزشتہ دس سالوں میں بلوچستان میں پچاس سے زائد صحافیوں کو پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں نے قتل کیا ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ میڈیا کے حوالے سے ہمارا احتجاج صحافیوں کو دباؤ دینا نہیں بلکہ صحافیوں سمیت اخبار اور ٹی وی مالکان کو خبردار کرنا ہے کہ وہ جس طرح چند اشتہارات کی خاطر اپنی ضمیر کا سواد کر کے انسانیت کا سودا لگا کر بلوچ نسل کشی کو چھپا رہے ہیں، اس سے وہ باز آئیں۔ اس میں صحافیوں کا ایک الگ کردار ہے، ہم ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ خبروں کی دوڑ میں ملٹری و سول بیوروکریسی کی ظہرانہ اور عشائیہ کی خبروں سے وقت نکال کر بلوچستان کی صورتحال پر بھی اپنا قلم استعمال کرکے اخبار مالکان اور سفاک حکمرانوں کا ضمیر جنجوڑیں گے۔ یہی اخبار،و ٹی وی چینلز القائدہ، طالبان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جماعت الدعویٰ سمیت مختلف شدت پسندوں کی خبروں کو شہہ سرخی بناکر دھندا کر رہے ہیں کیونکہ یہ گروہ پاکستان کے پراکسی ہیں اور بغیر کسی واضح مقصد کے دنیا میں دہشت گردی کے ذریعے انسانوں کو جانوروں کی طرح قتل کر رہے۔ یہی گروہ صحافیوں کے بھی قاتل ہیں ۔ دوسری جانب یہی صحافی اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان ایک عظیم مقصد آزادی کیلئے بر سرپیکار بلوچ تنظیموں کو دیوار سے لگا کر قابض ریاست کی سفاکیت کو جاری رکھنے کا موجب بنے ہوئے ہیں۔ یہ روش قابل قبول نہیں اور جس عمل سے بلوچ قوم کو نقصان پہنچ رہا ہو، اس کے خلاف رد عمل ہمارا قومی فریضہ ہے۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم ہزاروں سالہ الگ شناخت، زبان و ثقافت اور سینکڑوں سالہ علیٰحدہ جغرافیہ اور حدود کے باوجود بزور طاقت پاکستان جیسے غیر فطری ملک کاحصہ بنایا گیا ہے۔ ان 69 سالوں میں پاکستان نے بلوچ شناخت، زبان و ثقافت کو مٹانے و ختم کرنے کی ہر تئیں کوشش کی ہے مگر بلوچ مزاحمت نے پاکستان کی ان سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ بلوچی کتابوں پر پابندی،بلوچستان میں اسکولوں کی بندش، خواتین پر تیزاب چھڑکنا جیسی غلیظ حرکتوں پر ریاست کے خلاف لب سی کر خاموش رہنا مہذب پیشہ ورانہ صحافت کی نہیں بلکہ کرپٹ صحافت کی نشانی ہے۔ اس کے خلاف بی ایل ایف تمام آزادی پسندوں کو اکھٹا ہونے کی دعوت دیتا ہے ۔ الٹی میٹم کے اختتام پر عملی اقدامات شروع کی جائیں گی۔