میڈیا کی کور چشمی اور اس کا حل ؛تحریر :جیئند بلوچ

345

اپنی بات رکھنے سے قبل اسے مزید واضح کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ بات صحیح طرح  سےسمجھ میں آسکے۔

ایک کسان کو کسی فصل کے بارے بتایاگیا کہ وہ انتہائی کارآمد اور فائندہ مند ہے۔کسان نے اس کی کاشت کے لئے الگ زمین لی، اس یہ ہل چلایا ، کھاد ڑالی اور تیار کیا پھر بازار سے اس فصل کا بیج خرید کر کر اپنی تیار شدہ زمین میں اس نیت پہ اگالیا کہ اس کا فائدہ بہت زیادہ ملے گا مگر مدت گزرگئی اور کسان کو اس کا کوئی ثمر نا ملا زمین نے فصل نہیں اگائی۔

اگلے سیزن مین کسان نے زیادہ فائدے کی لالچ میں ایک بار پھر وہی کچھ کیا محنت کی زمین بنایا، بیج لایا اور کاشت کی مگر اس دفعہ بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ کسان تکنے والا نہیں تھا اس نے فائدے کی لالچ میں تیسری بار بھی وہی سب کچھ کیا جو وہ مسلسل دو مرتبہ کرتا آرہا تھا لیکن قسمت کے مارے کسان کی تیسری کوشش بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکی اس نے مگر اپنا ارادہ ترک نا کیا وہ ہر سیزن میں ایک ناکام کوشش کرتا رہا اب آپ سے کوئی پوچھے کسان کیسا شخص ہے ؟تو یقینا آپ کہیں گے کہ اس سے بڑا پاگل کوئی نہیں ہوگا۔

میرے خیال میں اس سے آپ میری بات کا مطلب سمجھ گئے ہونگے۔ اگر نہیں  تو چلیں ایک اور مثال لیتے ہیں کسی شہر کے والی نے ایک فیکرٹری لگائی شہر والے خوش ہوئیں کہ یہ فیکٹری ان کے روزگار کا زریعہ ہوگا اس سے ان کے معاشی مسائل اور مشکلات کم ہونگے لیکن والی شہر نے باہر سے لا کر لوگوں کو فیکٹری میں جمع کیا ان سے کام کرایا جتنی کمائی تھی وہ صرف والی شہر اور ان کے باہر سے آئے ملازمین نے سمیٹ لی شہر والوں کے حصے میں روزگار اور معاشی خوشحالی کے بجائے دھواں، زہریلی گیس اور فیکٹری کی آواز سے آرام اور نیند میں خلل آیا۔

اب اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ شہر والے اس پہ ہی قناعت کر کے خوش ہولیں کہ روزگار اور خوشحالی نا سہی کم ازکم ان کے شہر میں ایک عدد فیکٹری تو لگ چکی اس پہ آپ کیا جواب دینگے کہ ہاں یہ بھی خوشی کی بات ہے اگر آپ کا جواب ایسا ہی ہوگا تو آپ کو اپنے عقل کے لئے کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا چاہیے۔ اب تو آپ یقیناا سمجھ چکے ہونگے کہ میں کہنا دراصل کیا چاہتا ہوں اگر نہیں سمجھ رہے تو آیئے ایک اور مثال سے بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں آپ کو اپنے کمرے میں آئینہ لگانے کا خیال سوجھا تاکہ اس سے اپنے آپ کو دیکھ کر اپنا وضع قطع اور حلیہ درست کرسکیں آپ نے بازار جا کر ایک قیمتی آئینہ خریدا شہر سے ایک ماہر کاریگر لا کر اسے آئینہ دیا اور وہ مقررہ جگہ جہاں پہ آپ نے آئینہ لگانا تھا اسے دکھایا آپ مطئمن ہو کر کاریگر کو کام کے لئے اکیلے چھوڑ کر انتظار کرنے کے لگے کہ وہ آئینہ لگادے اور آپ اس سے استفادہ کرسکیں۔ جب آئینہ لگ چکا تو حیرت اور اضطراب سے آپ کی چیخیں نکلتے رہ گئیں کہ کاریگر نے آئینہ آپ کی قامت سے اوپر لگا دیا ہے جس سے آپ کسی طور اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتے آپ کی محنت، پیپسے وقت اور خواہش غارت گئیں یقینا آپ کو اس کا دکھ ہوگا لیکن پھر بھی کوئی شخص کہہ دے کہ نہیں کوئی پرواہ نہیں کم از کم آئینہ لگ تو گیا ہے تو میرے نزدیک اس کی عقل پہ تف ہے۔

اب آپ کو سمجھ آگیا ہوگا کہ میں اصل میں کہنا کیا چاہتا ہوں آپ اسی پیمانے پر پاکستانی کنترولڈ میڈیا کو سامنے رکھ کر بلوچستان کا جائزہ لیں۔ جو میڈیا بلوچستان میں رہ کر ہمارے وسائل پہ پلا بڑھا اور ہمارا کھا رہا ہے لیکن ہم سے نظریں بچھا کر بات کسی اور کی کررہی ہے۔ ہمارے جتنے دکھ، درد، مصائن، مشکلات اور آلام ہیں وہ میڈیا کو نظر نہیں آرہے لیکن ہمارے خلاف جو بات ہوتی ہے اسے چیخ اور چلا کر کہہ ڈالتا ہے۔

میڈیا گوکہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اس کا ایک یقینا ایک مسلمہ حیثیت اور حقیقت ہے، دنیا گوکہ آزادی اظہار کا متمنی ہے، اقوام متحدہ یقینا میڈیا کی آزادی کو مقدم سمجھتی ہے لیکن آپ سے سوال ہے کہ جو میڈیا آپ کے پاس رہتے ہوئے آپ کے کسی کام کا نہیں ہے بلکہ الٹا آپ کے خلاف بکواس، پروپیگنڈہ، جھوٹ اور زہر افشانی کا مرتکب ہورہی ہے اور آپ ان سب سے واقف ہیں دیکھ رہے ہیں جانتے ہیں پھر بھی آپ خاموش رہیں یہ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔

کچھ دن قبل ہمارے ایک محترم دانش ور نے میڈیائی قوت اور بلوچ تنظیموں کی حکمت عملی پر طویل مضمون قلم بند کر کے کہاں کہاں سے مثالیں لا کر میڈیا کی قوت جتانے اور اس سے ڈرانے کی کوشش کی تھی کہ اس کا اثر یہ ہوگا، اس کے نقصانات یوں نکلیں گے مگر محترم دانش ور صاحب کو یہ زمینی حقیقت نظر نہیں آئی تھی کہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران میڈیا نے بلوچ مسلے پر کتنا مثبت رول ادا کیا ہے۔ اور بلوچ تحریک آزادی کے متعلق میڈیا کا بازاری زبان، سرکاری بیانیہ، تہمت بازی، بچگانہ پن اور زہریلے نشتر کس قدر پریشان کن رہے ہیں۔

پاکستانی کنٹرولڈ میڈیا جو بلوچستان میں موجود ہے اس کے خلاف بلوچ تنظیموں نے مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے کر ایک احسن قدم اٹھایا ہے گوکہ ہم جیسے کچھ جاہل اور بے عمل افراد اس کی مخالفت کرینگے لیکن سوال یہ ہے کہ اس میڈیا جس کا ہم رونا روتے یا اس کی طاقت سے ڈراتے ہیں نے بلوچستان کو دیاکیا ہے۔اس کی بلوچ دشمنی تو اس قدر آگے جاچکی ہے کہ بلوچستان اور اس کے معاملات ایک طرف اسلام آباد کے جناح یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کے احتجاج اور پولیس گردی کو چھپانے کے لیئے اس نے بلوچ طلباء کے خلاف کس قدر یکطرفہ اور منفی کرداد کشی کی۔ حالانکہ بلوچ مسلح تنظیموں نے ابتدائی بیانات میں محض میڈیا کو اپنا رویہ مثبت اور غیر جانبدار بنانے کے لیئے الٹی میٹم دینے پر اکتفا کیا ہے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اپنا اصولی طریقہ کار طے کر کے عالمی قوانین کا لحاظ رکھیں جو میڈیا کا حق ہے ابھی تک باقاعدہ میڈیا کے خلاف طاقت آزمائی سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی ہے ماسوائے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے تنبیہی حملوں کے۔

اگر میڈیا واقعی بلوچستان میں رہنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ سرکاری زبان بولنے کے بجائے میڈیائی زبان اپنائے، میڈیائی اصول و ضوابط کا پاس رکھے ورنہ اسے یہاں رہنے ہمارے وسائل پہ پلنے اور کھانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قومی رہبر ڈاکٹر اللہ نظر نے پہلی بار میڈیا کے دوہرے کردار پر سخت موقف اپنا کر اسے درست سمت اختیار کرنے کی تنبیہ کی ہے بصورت دیگر ان کے ساتھ وہی زبان مین بات کرنے کا عندیہ دیا جو پاکستان اور اس کی آرمی بلوچوں کے ساتھ کر کے میڈیا اس کو حق بجانب قرار دینے کی سعی کرتی آرہی ہے امید ہوچلا ہے کہ اب کی بار بلوچ تنظیمیں اور بلوچ قیادت میڈیا کے نام پر بلوچستان میں مچائی گئی گند اور سرکاری فضلے پر مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونگے۔