میڈیا: لاتوں کا بھوت – جیئند بلوچ

248

ہم بلوچستان میں میڈیا کی خود اختیار کردہ دوغلی پالیسی پر بات کرنے سے پہلے آج کے مختلف اخبارات میں چھپنے والے تحریک طالبان کے اس خبر پر پہلے بات کرینگے جس میں مغوی کنیڈین جوڑے کے الزامات کو بے بنیاد کہہ کر ان کی تردید کی گئی ہے۔ تحریک طالبان عالمی دہشت گرد تنظیم ہے جس پر پاکستان میں بھی پابندی لگائی جاچکی ہے پاکستانی عدالتوں کی جانب سے دیگر پابندی شدہ تنظیموں کے ساتھ ساتھ یہ اطلاق داعش اور طالبان پر بھی ہے کہ ان کے بیانات میڈیا میں نہیں آنا چاہیے۔ میں اس ضمن میں جن اخبارات کا حوالہ دے رہا ہوں وہ صرف بلوچستان کے اخبارات ہیں جن میں جنگ، ایکسپریس، خبریں وغیرہ کے علاوہ روزنامہ انتخاب بھی شامل ہے۔ ان تمام اخبارات جن کا زکر کیاگیا اور ان کے علاوہ دیگر نے طالبان کے بیان کو نمایاں شائع کیا ہے حتی کہ روزنامہ انتخاب میں 16۔102017کی اشاعت میں یہ بیان اپر رائیٹ( کسی بھی اخبار میں یہ سب سے نمایاں اور اہم تریں حصہ ہوتا ہے )پر دکھائی دیتا ہے۔

یہ ہوئی طالبان کے آج کی خبر جس کا حوالہ دیاگیا بلوچستان کا جب بھی معاملہ ہوتا ہے اخبارات اور ٹی وی مسلسل یہ عزر پیش کرتے ہیں کہ ریاستی دبائو اور عدالتی احکامات کے پیش نظر وہ کچھ چھاپنے سے قاصر ہیں مگر جب عدالتی فیصلہ یا ریاستی دبائو واقعی میں اتنا اہم ہے تو ہونا چاہیے تھا کہ طالبان کے بیان کا بھی اسی طرح بائیکاٹ کیا جاتا جس طرح کی مجبوریاں بلوچ مسلح تنظیموں کے معاملے میں یا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کو نمایاں کرنے کے معاملے میں میڈیا ہائوسز مسلسل ایک عرصے سے پیش کررہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں کیا جاتا آپ کے روز اگر اخبارات یا پاکستانی ٹی وی چینل دیکھا کریں تو ضرور کسی دہشت گرد تنظیم داعش، تحریک طالبان، لشکر طیبہ، لشکر خراسان، حقانی نیٹ ورک وغیرہ میں سے کسی کا کوئی بیان لازمی نظر آئے گا اس پر نا کبھی ہم کسی عدالت کو جنبش کرتے دیکھتے ہیں اور نا ریاست کے کسی اور ادارے کو لیکن جب کبھی بلوچستان کا مسلہ میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے اور ان سے یہ گلہ کیا جائے کہ بلوچستان میں کیوں کر نظر انداز کیا جا رہا ہے تو عدالت اور ریاست کا تکرار سننے کو مل جاتا ہے۔

میڈیا کی اس دوغلی پالیسی پر اگر آنکھیں بند کر کے ان کے پیش کردہ خودساختہ عزر کو جائز سمجھا جائے تو بلوچستان میں روز بروز ریاست کا طاقتور بیانیہ پیش کیا جاتا رہے گا۔ بلوچ مسلح تنظیموں یا قوم پرست علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف ریاستی بیانیہ کو لے کر گمراہ کن پروپگنڈہ پیش کیا جاتا رہے گا۔ میڈیا چونکہ اب خود ریاستی بیانیئے کا ایک حصہ بن گیا ہے اور بغیر کسی دبائو کے خود بلوچستان کی جھوٹی منظر کشی کرتی آرہی ہے اس لیئے ضرورت ہے کہ یہ دوغلا پن اب بند ہونا چاہیے۔ سب کو بخوبی معلوم ہے کہ میڈیا ہائوسز اشتہارات کی خاطر ریاست کے سامنے سربسجود ہیں جبکہ مقامی سطح پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی بھی زیادہ تر بکائو مال بن گئے ہیں اگر ان میں چند با ضمیر لوگ موجود ہیں تو ان پر ان کے اپنے ساتھیوں کی جانب سے مخبری کے سبب سخت دبائو موجود ہے۔

بلوچستان کے تمام اضلاع سے لے کر کوئٹہ کے نام نہاد بڑے صحافیوں تک آئی ایس آئی اور ایف سی کے ساتھ کسی نا کسی طرح غیر صحافتی تعلق استوار کرچکے ہیں جو سراسر صحافتی اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے یہ الزام نہیں ہے بلکہ حقیقت ہے کہ صحافیوں میں بیشتر کے ڈنر، کچھ کے عشائیہ حتی کہ کچھ کا ناشتہ تک کینٹ اور آئی ایس آئی کے دفاتر میں ہوتا ہے جبکہ کئی علاقائی پریس کلب مقامی اخبارات میں فخریہ بیان دے چکے ہیں کہ انہیں ایف سی کی جانب سے لیپ ٹاپ اور موٹر سائیکل مل چکے ہیں۔ اگر صورتحال یہ ہے تو کیا اس بات کو سچ مانا جائے یا قبول کیا جائے کہ میڈیا پر ریاستی دبائو یا عدالتی بندش ہے جس کے سبب بلوچستان کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو قطعا اس میں کوئی سچائی نہیں ہے بلکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ خود میڈیا سے وابستہ صحافیوں کا گھڑا گیا ہے فوج اور آئی ایس آئی سے مل کر خود انہوں نے یہ عزر تراشا ہے کہ دبائو کا آسان تریں عزر لے کر بلوچستان کے معاملات کو پس پشت ڈالا جائے ورنہ تو بندش کا اطلاق تمام کالعدم تنظیموں پر بھی ہے جبکہ طالبان اور دیگر دہشت گردوں کے بیانات اخبارات کے اپر رائیٹ حصے میں دیکھے جاسکتے ہیں اس پر خاموشی کیسا۔

بلوچستان میں مسلح تنظیموں نے مشترکہ طور پر میڈیا کو بیس روز اور بعدازاں ان کے کہنے پر بائیس روزہ الٹی میٹم دے کر اپنا روش مثبت بنانے کی جو ہدایت جاری کی تھی اس کے خلاف حیران کن طور پر بلا وجہ کوئٹہ میں صحافیوں نے احتجاج کیا اور حکومت سے اپنے تحفظ کا مطالبہ بھی کیا۔ یہ عمل اس لیئے بھی حیران کن ہے کہ ایک جانب خود صحافیوں نے مسلح تنظیموں نے سے الٹی میٹم میں توسیع کا مطالبہ کر کے ایک بہتر فیصلہ کی مہلت طلب کی تھی جبکہ الٹی میٹم سے قبل ہی بلا وجہ احتجاج کر کے حکومت سے تحفط بھی مانگا جو یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ میڈیا کا رویہ دوغلا ہے وہ ریاستی بیانیہ ایک حصہ بن گیا ہے اور اس کی یہ کوشش ہے کہ فوج سے مراعات لے کر وہ بلوچستان کے معاملے میں اسی طرح اپنے تراشیدہ عزرات کے سہارے مہر بہ لب رہے حالانکہ ان کا احتجاج اس صورت میں بھی غیر اخلاقی عمل کہا جاسکتا ہے کہ انہیں کسی مسلح تنظیم نے نا باقاعدہ دہمکیاں دی تھیں اور نا ہی کوئی نقصان پہنچایا تھا بلکہ ان سے یہ مطالبہ کیاگیا تھا کہ وہ اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لا کر بلوچستان کو میڈیا میں ان کا جائز حق دیں اور یہاں آئے روز جس طرح کی انسانی حقوق کی پامالیاں کی جارہی ہیں انہیں نمایاں کریں۔ مگر لگتا یہ ہے کہ بلوچستان کی سطح پر میڈیا وہ بھوت بن گیا ہے جسے لاتوں کے علاوہ باتوں سے باز نہیں رکھا جاسکتا۔