لاپتہ افراد کے قائم کمیشن کے سربراہ کا بلوچ مسنگ پرسنز کے متعلق بیان حقائق کے منافی ہے- بی بی گل بلوچ

284

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل بلوچ نے لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے سربراہ کا کہ بلوچ مسنگ پرسنز کے متعلق بیان حقائق کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمیشن مسنگ پرسنز کے حوالے سے سنجیدگی دکھانے کے بجائے اپنے بیانات سے لاپتہ افراد کے خاندانوں کی زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن گزشتہ پانچ سالوں سے بلوچستان میں لاپتہ افراد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کام کررہی ہے، لیکن مذکورہ کمیشن نے بلوچستان کے حوالے سے ہماری تنظیم سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ 2015کے آخر سے لیکراپریل2016 تک خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان سے 12,000افراد کو مشتبہ ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا، ان افراد کی تفصیلات تاحال میڈیا کو جاری نہیں کی گئی ہیں اور نہ ہی ان میں سے بیشتر کو عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ آئے روز کی گمشدگیوں کے واقعات پر بھی جاوید اقبال نے کوئی بات ظاہر کرنے سے گریز کی۔

بی بی گل بلوچ نے کہا کہ بلوچ مسنگ پرسنز کے خاندانوں کو آرمی کے اہلکار باقاعدہ طور پر ڈرا دھمکا کر انہیں کیس داخل کرنے سے روکتے ہیں، اگر کوئی خاندان ان دھمکیوں کے باوجود کیس درج کرنا چاہے تو پولیس بھی فوجی اداروں کے خوف سے ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ کمیشن کو چاہیے تھا کہ وہ ان تمام مشکلات کو مدنظر رکھ کر بلوچ مسنگ پرسنز کے حوالے سے ریمارکس دیتے، لیکن اس کے بجائے سطحی معلومات کی بنیاد پر لاپتہ افراد کی ہزاروں کی تعداد سے کمیشن سربراہ مکمل انکاری ہے جو کہ بلوچ مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے لئے باعث تکلیف ہے۔

بی ایچ آر او کی چیئرپرسن نے کہا کہ بلوچستان کی زمینی صورت حال ایسی نہیں کہ وہاں سے لاپتہ افراد کی تعداد اور بنیادی معلومات آسانی سے یکجا کی جاسکیں، لیکن اس کے باوجود بی ایچ آر او کے رضا کار بلوچستان بھر کے واقعات، خصوصاََ ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کے واقعات کی تفصیلات ہر ماہ میڈیا کو جاری کررہے ہیں، 2016کو بی ایچ آر او کو گمشدگی کے 1809کیسز موصول ہوئے جبکہ رواں سال کی پہلی شش ماہی میں1302گمشدگی کے کیسز بی ایچ آر او کو موصول ہوئے جبکہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ ان کیسوں کی تفصیلات کو ہم ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق سمیت تمام انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا پرسنز کے ساتھ شیئر کرنے کوتیار ہیں۔

بی ایچ آر او کی چیئرپرسن نے کہا کہ بلوچستان کی اصل صورت حال کا اندازہ پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹوں سے صحیح طور پر نہیں لگایا جا سکتا، اگر کوئی ادارہ ایمانداری سے لاپتہ افراد کے حوالے سے رپورٹ جمع کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے لاپتہ افراد خاندانوں سے ملے، اس ضمن میں بی ایچ آر او ہر ممکن مدد کو تیار ہے۔